Madarik-ut-Tanzil - Az-Zumar : 30
اِنَّكَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّهُمْ مَّیِّتُوْنَ٘
اِنَّكَ : بیشک تم مَيِّتٌ : مرنے والے وَّاِنَّهُمْ : ار بیشک وہ مَّيِّتُوْنَ : مرنے والے
(اے پیغمبر ﷺ تم بھی مرجاؤ گے اور یہ بھی مرجائیں گے
موت سب پر ہے تو کسی کے انتظار موت سے اس میں فرق نہیں : 30: اِنَّکَ مَیِّتٌ (آپ کو بھی مرنا ہے) یعنی عنقریب آپ پر موت آئے گی۔ وَّ اِنَّہُمْ مَّیِتُوْنَ (اور ان کو بھی مرنا ہے) مَیْتٌ تخفیف سے وہ جس پر موت اترے۔ قولِ خلیل : ابو عمرو نے یہ شعر پڑھا ؎ وتسألنی تفسیر مَیّتٌ وَمَیْتٍ ٭ فدونک وقد فسرت ان کنت تعقل فمن کان ذا روحٍ فذلک مَیّتٌ ٭ وما المیْتُ الامن الی القبر یحمل جس پر موت آئندہ طاری ہوگی وہ میت ہے اور جو مرچکا اور اس کو قبر کی طرف لے جایا جارہا ہو۔ وہ مَیْتٌہے۔ کفار قریش رسول اللہ ﷺ کے متعلق موت کے منتظر تھے۔ پس اس میں خبر دی گئی کہ موت تو ان کو بھی آئے گی۔ پھر کسی کے انتظار موت کا کیا فائدہ۔ اور فانی کا فانی کی موت پر خوش ہونا چہ معنی دارد۔ قولِ قتادہ (رح) : اس میں اللہ تعالیٰ نے آپ کی موت کی خبردی ہے۔ اور تمہارے نفوس کے بھی مرنے کی خبر دی۔ یعنی آپ اور وہ سب موتیٰ کے شمار میں ہو۔ کیونکہ جو ہونے والا ہے اس کو ہوچکا شمار کرنا چاہیے۔
Top