Madarik-ut-Tanzil - Az-Zumar : 31
ثُمَّ اِنَّكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ عِنْدَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُوْنَ۠   ۧ
ثُمَّ : پھر اِنَّكُمْ : بیشک تم يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن عِنْدَ : پاس رَبِّكُمْ : اپنا رب تَخْتَصِمُوْنَ : تم جھگڑو گے
پھر تم سب قیامت کے دن اپنے پروردگار کے سامنے جھگڑو گے (اور جھگڑا فیصل کردیا جائے گا )
ایک دوسرے کے خلاف دلیل پیش کریں گے : 31: ثُمَّ اِنَّکُمْ (پھر تم) یعنی تم اور وہ۔ اصل کلام انک وایاھم تھا پھر ضمیر مخاطب کو غیب پر غلبہ دیا۔ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عِنْدَ رَبِّکُمْ تَخْتَصِمُوْنَ (قیامت کے دن تم اپنے مقدمات اپنے رب کے سامنے پیش کروگے) پھر آپ ان کے خلاف دلیل پیش کریں گے کہ آپ نے پیغام پہنچا دیا اور انہوں نے جھٹلا دیا۔ اور آپ نے دعوت دینے میں خوب کوشش کی مگر انہوں نے عناد کے سمندر میں غوطے لگائے۔ وہ معذرت پیش کریں گے مگر اس کا فائدہ نہ ہوگا۔ پیروکار کہیں گے ! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کی بات مانی سرداروں کا جواب ! ہمیں شیاطین نے اغواء کیا اور ہمارے آباء و اجداد کو بھی۔ صحابہ کرام ؓ نے کہا ہمارا جھگڑا کیا ہوگا۔ حالانکہ ہم تو بھائی بھائی ہیں۔ جب حضرت عثمان ؓ کو شہید کردیا گیا تو کہنے لگے یہ ہماری خصومت ہے۔ ابو العالیہ کا قول یہ ہے کہ یہ اہل قبلہ کے متعلق اتری۔ اور یہ ان مظالم اور خونوں کے متعلق ہے جو مسلمانوں کے باہمی ہیں۔ مگر بہتر قول پہلا ہے۔ اس کی تائیداگلی آیت میں فرمائی۔
Top