Madarik-ut-Tanzil - Az-Zumar : 57
اَوْ تَقُوْلَ لَوْ اَنَّ اللّٰهَ هَدٰىنِیْ لَكُنْتُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَۙ
اَوْ : یا تَقُوْلَ : وہ کہے لَوْ : اگر اَنَّ اللّٰهَ : یہ کہ اللہ هَدٰىنِيْ : مجھے ہدایت دیتا لَكُنْتُ : میں ضرور ہوتا مِنَ : سے الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار (جمع)
یا یہ کہنے لگے کہ اگر خدا مجھ کو ہدایت دیتا تو میں بھی پرہیزگاروں میں ہوتا
آیت، یا کوئی یوں کہنے لگے کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے ہدایت کرتا۔ یعنی ہدایت دینتا، آیت، تو میں بھی پرہیز گاروں میں سے ہوتا، ان لوگوں میں سے ہوتا جو شرک سے بچتے ہیں۔ شیخ ابو منصور (رح) کا قول : یہ کافر معتزلہ کی بنسبت اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو زیادہ جاننے والا ہے اور اسی طرح وہ کفار بھی ان سے زیادہ ہدایت الٰہی سے آگاہ ہیں جنہوں نے اپنے متبعین کو یہ کہا، لو ھدانا اللہ لھدینا کم، وہ یہ کہیں گے اگر ہمیں اللہ تعالیٰ ہدایت کی توفیق دیتے اور ہدایت عنایت فرماتے تو ہم تمہیں بھی اس کی طرف دعوت دیتے اور بلاتے۔ لیکن اس نے ہم سے ضلالت وغوایت کا اختیار کرنا جانا، پس ہمیں ذلیل کردیا اور ہمیں توفیق نہ دی۔ اس کے برخلاف قول معتزلہ یہ ہے بلکہ ان کو ہدایت دی اور توفیق بھی عنایت فرمائی لیکن انہوں نے ہدایت نہ پائی۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مہربانی و عنایت ہے جس پر وہ مہربانی ہوگئی اور وہ ہدایت پا گیا اور اسی مہربانی کا نام توفیق و عصمت ہے اور جس کو توفیق میسر نہ ہوئی وہ گمراہ ہوا اور پھسل گیا۔ اس کا عذاب کو پسند کرنا اور حق کو ضائع کرنا اس کے بعد کہ اس کے حصول پر پوری قدرت دی گئی اسی بناء پر ہے۔
Top