Madarik-ut-Tanzil - Az-Zumar : 61
وَ یُنَجِّی اللّٰهُ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا بِمَفَازَتِهِمْ١٘ لَا یَمَسُّهُمُ السُّوْٓءُ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ
وَيُنَجِّي : اور نجات دے گا اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا : وہ جنہوں نے پرہیزگاری کی بِمَفَازَتِهِمْ ۡ : ان کی کامیابی کے ساتھ لَا يَمَسُّهُمُ : نہ چھوئے گی انہیں السُّوْٓءُ : برائی وَلَا هُمْ : اور نہ وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
اور جو پرہیزگار ہیں انکی (سعادت اور) کامیابی کے سبب خدا انکو نجات دے گا نہ تو ان کو کوئی سختی پہنچے گی اور نہ وہ غمناک ہوں گے
ایمان والوں کی کامیابی۔ وینجی اللہ، اور اللہ تعالیٰ نجات دے گا، چھٹکارا، وینجی بھی پڑھا گیا۔ الذین اتقوا، ان لوگوں کو جو بچتے تھے۔ یعنی شرک سے۔ بمفازتہم، کامیابی کے ساتھ، فلاح کے ساتھ۔ کہا جاتا ہے فاز بکذا جبکہ وہ اپنی مراد کو پالے اور اس کو پانے میں کامیاب ہوجائے۔ لا یمسہم السوء (ان کو تکلیف نہ پہنچے گی) یہ مفازۃ کی تفسیر ہے۔ السوء سے آگ مراد ہے۔ ولا ھم یحزنون (اور نہ وہ غمگین ہوں گے) گویا اس طرح کہا گیا کہ ان کی کامیابی کیا ہے، تو جواب دیا گیا کہ ان کو تکلیف چھو تک نہ سکے گی، یعنی ان کی نجات ان سے نفی سوء و حزن سے ہوگی مطلب یہ ہوا ان کے ابدان کو ایذاء مس نہ کرے گی اور نہ ان کے دلوں کو غم چھو سکے گا۔ یا باء کو سببیہ مان لیں ان کے نجات پانے کے سبب جیسا کہ اس ارشاد میں وارد ہے۔ فلا تحسبنہم بمفازۃ من العذاب (آل عمران) ۔ کہ کسی سبب سے وہ اس سے چھوٹنے والے ہیں کیونکہ نجات سب سے بڑی کامیابی ہے اور ان کی نجات کا سبب عمل صالح ہے۔ اسی لیے ابن عباس ؓ نے تفسیر اس طرح فرمائی المفازۃ بالاعمال الحسنۃ (کامیابی اعمال حسنہ کے ذریعہ ہوتی ہے) 2 اور یہ بھی جائز ہے بسبب فلاحہم۔ ان کی فلاح کے سبب کیونکہ عمل صالح یہ فلاح کا سبب ہے۔ اور فلاح دخول جنت ہے ل۔ 3 ۔ اور یہ بھی درست ہے کہ عمل صالح ہی کو بذات خود مفازہ کہہ دیا جائے کیونکہ عمل صالح کامیابی کا سبب ہے۔ لایمسہم کا کوئی محل اعراب نہیں جبکہ تفسیر اول تسلیم کریں اس صورت میں یہ جملہ مستانفہ ہے اور دوسری تفسیر کی صورت میں یہ محل نصب میں حال واقع ہے۔ قراءت : حفص کے علاوہ کوفی قراء نے بمفازاتہم پڑھا ہے۔
Top