Madarik-ut-Tanzil - An-Nisaa : 107
وَ لَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِیْنَ یَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا اَثِیْمًاۚۙ
وَلَا تُجَادِلْ : اور نہ جھگڑیں عَنِ : سے الَّذِيْنَ : جو لوگ يَخْتَانُوْنَ : خیانت کرتے ہیں اَنْفُسَھُمْ : اپنے تئیں ِاِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يُحِبُّ : دوست نہیں رکھتا مَنْ كَانَ : جو ہو خَوَّانًا : خائن (دغا باز) اَثِيْمًا : گنہ گار
اور جو لوگ اپنے ہم جنسوں کی خیانت کرتے ہیں ان کی طرف سے بحث نہ کرنا کیونکہ خدا خائن اور مرتکب جرائم کو دوست نہیں رکھتا
آیت 107 : وَلَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِیْنَ یَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَہُمْ (اور نہ مجادلہ کریں ان لوگوں کی طرف سے جو اپنے نفسوں کی خیانت کرنے والے ہیں) وہ معصیت کر کے اپنے نفسوں کی خیانت کرتے ہیں۔ معصیت خیانت ہے : مسئلہ : نافرمانوں کی معصیت کو ان کے نفوس کی خیانت فرمایا۔ کیونکہ اس کا نقصان بالآخر نفوس کی طرف لوٹتا ہے۔ اس سے مراد طعمہ ہے۔ اور اسی طرح اس کی قوم میں سے جو اس کے معاون تھے۔ حالانکہ ان کو علم تھا کہ وہ چور ہے۔ یا لفظ جمع سے اس لئے ذکر کیا تاکہ طعمہ اور ہر خائن کو شامل ہوجائے۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ خَوَّانًا اَثِیْمًا (بےشک اللہ تعالیٰ نہیں پسند فرماتے جو کہ بڑا خائن گناہ گار ہو) یہاں خَوَّانًا مبالغہ کا لفظ لایا گیا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ طعمہ خیانت میں بہت بڑھنے والا ہے اور خیانت پر جم جانے والا ہے۔ روایت میں آتا ہے کہ طعمہ راتوں رات مکہ بھاگ کر مرتد ہوگیا۔ اور وہاں ایک دیوار میں نقب زنی کی۔ وہ دیوار اس پر آگری اور وہ ہلاک ہوگیا۔ گناہ سے گناہ ملتا ہے : مسئلہ : جب آدمی کا قدم کسی گناہ پر لڑ کھڑا جاتا ہے تو اس گناہ کے کئی اور بھائی بھی ہوتے ہیں۔ جو ساتھ آجاتے ہیں۔ مقولہ عمر ؓ۔ آپ نے ایک چور کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ اس کی ماں روتی ہوئی آئی۔ وہ کہہ رہی تھی۔ یہ پہلی بار کی چوری ہے جو اس سے ہوئی اس کو معاف کردیں۔ آپ نے فرمایا۔ تو جھوٹ بول رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو پہلی مرتبہ کی غلطی پر نہیں پکڑتے۔
Top