Madarik-ut-Tanzil - An-Nisaa : 128
وَ اِنِ امْرَاَةٌ خَافَتْ مِنْۢ بَعْلِهَا نُشُوْزًا اَوْ اِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَاۤ اَنْ یُّصْلِحَا بَیْنَهُمَا صُلْحًا١ؕ وَ الصُّلْحُ خَیْرٌ١ؕ وَ اُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ١ؕ وَ اِنْ تُحْسِنُوْا وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا
وَاِنِ : اور اگر امْرَاَةٌ : کوئی عورت خَافَتْ : ڈرے مِنْۢ بَعْلِھَا : اپنے خاوند سے نُشُوْزًا : زیادتی اَوْ : یا اِعْرَاضًا : بےرغبتی فَلَا جُنَاحَ : تو نہیں گناہ عَلَيْهِمَآ : ان دونوں پر اَنْ يُّصْلِحَا : کہ وہ صلح کرلیں بَيْنَهُمَا : آپس میں صُلْحًا : صلح وَالصُّلْحُ : اور صلح خَيْرٌ : بہتر وَاُحْضِرَتِ : اور حاضر کیا گیا (موجود ہے) الْاَنْفُسُ : طبیعتیں الشُّحَّ : بخل وَاِنْ : اور اگر تُحْسِنُوْا : تم نیکی کرو وَتَتَّقُوْا : اور پرہیزگاری کرو فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے بِمَا تَعْمَلُوْنَ : جو تم کرتے ہو خَبِيْرًا : باخبر
اور اگر کسی عورت کو اپنے خاوند کی طرف سے زیادتی یا بےرغبتی کا اندیشہ وہ تو میاں بیوی پر کچھ گناہ نہیں کہ آپس میں کسی قرارداد پر صلح کرلیں اور صلح خوب (چیز) ہے اور طبعیتیں تو بخل کی طرف مائل ہوتی ہے اور اگر تم نیکو کاری اور پرہیزگاری کرو گے تو خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے
شرط پر صلح میں حرج نہیں : آیت 128: وَاِنِ امْرَاَۃٌ خَافَتْ مِنْم بَعْلِہَا نُشُوْزًا (اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے بد دماغی کا خطرہ ہو) یعنی علامات و قرائن سے احتمال ہو۔ النشوز خاوند بیوی سے خشکی دکھائے اور اس کا حق اور خرچہ روک دے۔ اور گالی گلوچ اور ضرب سے تنگ کرے۔ اَوْ اِعْرَاضًا یا رخ پھیر لینے کا خطرہ ہو۔ کہ وہ اس سے میل جول میں کمی کرتا اور انس و محبت میں کمی کرتا ہو خواہ اس کے بڑھاپے یا بدصورتی کی وجہ سے یا اس کے اخلاق یا خلقت یا رنج یا دوسری سے آنکھ لگ جانے کی وجہ سے یا اور اسی طرح کی صورت ہو۔ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِمَآ اَنْ یُّصْلِحَا بَیْنَہُمَا صُلْحًا تو کوئی حرج نہیں کہ وہ اپنے مابین (کسی شرط پر) مصالحت کرلیں۔ قراءت : کوفی نے یصَّالحا پڑھا۔ یصّالحا اصل میں یتصالحا ہے تا کو صاد کر کے ادغام کیا گیا ہے۔ صُلحاً یہ مصدر ہے اور ہر دو فعل مصدر کے معنی میں ہیں الصلح کا معنی یہ ہے کہ وہ دونوں باہمی خوشدلی سے صلح کرلیں کہ وہ عورت خوشدلی سے کسی تقسیم پر راضی ہوجائے یا بعض حصے پر راضی ہوجائے یا بعض مہر خاوند کو واپس کر دے یا تمام واپس کر دے یا خرچہ کا مطالبہ نہ کرے۔ صلحًا (ان یصلحا کا کو مفعول بنانا صحیح ہے خواہ مجرد و مزید کا فرق ہے جیسا کہ اس آیت میں انبتہُ اللّٰہ نباتًا) وَالصَّلْحُ خَیْرٌ (اور صلح بہت بہتر ہے) جدائی سے یا نافرمانی سے یا ہر چیز میں جھگڑا ڈالنے سے۔ یا الصلح خیر من الخیور کہ بھلائیوں میں سے بڑی بھلائی صلح ہے جیسا کہ جھگڑا شرور میں سے بڑا شر ہے۔ بخل طبع انسانی کا حصہ ہے : نحو : یہ جملہ معترضہ ہے۔ جیسا کہ : وَاُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ انسانی طبائع سے حرص غائب نہیں ہوتی۔ اس آیت میں بخل کو نفس انسانی کے پاس ہر وقت حاضر باش قرار دیا کہ وہ کبھی اس سے غائب نہیں۔ یعنی وہ طبع انسانی کا حصہ ہے۔ مقصد یہ ہے کہ عورت اپنے حصہ سے درگزر کے لئے تیار نہیں اور مرد اس کو اس کا حصہ دینے کے لئے تیار نہیں۔ جب کہ وہ اس سے بےرغبتی رکھتا ہو۔ ہر ایک اپنے آرام کا طالب ہے۔ احضرت کے دو مفعول ہیں اول انفس اور دوسرا الشح۔ پھر طبیعت کی مخالفت پر آمادہ کیا اور شریعت کی اتباع کا حکم دیا۔ وَاِنْ تُحْسِنُوْا (اور اگر تم احسان کرو) اگرچہ وہ تمہیں ناپسند اور دوسری پسند ہوں مگر حق صحبت کا خیال کرتے ہوئے ان کو قائم رکھو۔ وَتَتَّقُوْا (بےرغبتی اور اعراض سے بچو) اور ان چیزوں سے بھی جو جھگڑے اور ایذاء کا باعث ہوں۔ فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ، تو اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال احسان وتقویٰ سے خَبِیْرًا (مطلع ہیں) پس وہ تمہیں ثواب عنایت فرمائیں گے۔ لطیفہ : عمران خارجی علیہ ما علیہ بنی آدم کے انتہائی ٗ بدصورت لوگوں میں سے تھا۔ اور اس کی بیوی انتہائی خوبصورت۔ عورت نے اس کو دیکھ کر کہا الحمدللہ۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میں اور تو جنتی ہیں۔ عمران نے کہا وہ کیسے۔ عورت نے کہا تمہیں مجھ جیسی خوبصورت ملی تو تم نے شکر کیا اور مجھے تجھ جیسا بدصورت ملا تو میں نے صبر کیا اور جنت تو شاکرین و صابرین کے لئے تیار کی گئی ہے۔ (اگر خارجی ان میں سے ہوئے تو ! فافہم)
Top