Madarik-ut-Tanzil - An-Nisaa : 72
وَ اِنَّ مِنْكُمْ لَمَنْ لَّیُبَطِّئَنَّ١ۚ فَاِنْ اَصَابَتْكُمْ مُّصِیْبَةٌ قَالَ قَدْ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیَّ اِذْ لَمْ اَكُنْ مَّعَهُمْ شَهِیْدًا
وَاِنَّ : اور بیشک مِنْكُمْ : تم میں لَمَنْ : وہ ہے جو لَّيُبَطِّئَنَّ : ضرور دیر لگا دے گا فَاِنْ : پھر اگر اَصَابَتْكُمْ : تمہیں پہنچے مُّصِيْبَةٌ : کوئی مصیبت قَالَ : کہے قَدْ اَنْعَمَ : بیشک انعام کیا اللّٰهُ : اللہ عَلَيَّ : مجھ پر اِذْ : جب لَمْ اَكُنْ : میں نہ تھا مَّعَھُمْ : ان کے ساتھ شَهِيْدًا : حاضر۔ موجود
اور تم میں کوئی ایسا بھی ہے کہ (عمدا) دیر لگاتا ہے پھر اگر تم پر کوئی مصیبت پڑجائے تو کہتا ہے کہ خدا نے مجھ بڑی مہربانی کی کہ میں ان میں موجود نہ تھا
آیت 72 : وَاِنَّ مِنْکُمْ لَمَنْ لَّیُبَطِّئَنَّ ( اور تم میں سے بعض تو وہ ہیں جو سست پڑجاتے ہیں) جان بوجھ کر سستی والے منافق ہیں : نحو : لَمَنْ کی لام ابتدائیہ ہے۔ جیسا کہ ان اللّٰہ لغفورٌ میں ہے۔ من موصولہ ہے۔ لیبطئنَّ کا لام قسم محذوف کا جواب ہے۔ تقدیری عبارت یہ ہے۔ وان منکم لمن اقسم باللّٰہ لیبطئن۔ قسم اور جواب قسم مل کر مَنْ کا صلہ ہے۔ اور اس کے اندر لوٹنے والی ضمیر لیبطئن میں جاگزین ہوگئی ہے۔ مطلب یہ ہے لیتثاقلن ولیتخَلفَنَّ عن الجہاد۔ وہ ضرور بوجھل ہونگے اور ضرور جہاد سے پیچھے رہیں گے۔ بطؤ کا معنی ابطاء ہے۔ تاخیر کو۔ کہتے ہیں مابطؤبک۔ اور یہ با سے متعدی بنتا ہے۔ اس میں لشکر رسول اللہ ﷺ کو خطاب ہے۔ منکم سے مراد یہ ہے کہ ظاہر سے وہ تم میں سے ہیں اور باطن سے نہیں بلکہ وہ منافق ہیں۔ اور خفیہ طور پر کہتے ہیں تم اپنے آپ کو کیوں قتل کرتے ہو۔ انتظار کرو یہاں تک کہ غلبہ ہوجائے۔ فَاِنْ اَصَابَتْکُمْ مُّصِیْبَۃٌ (اگر تم پر قتل وشکست کی مصیبت پڑتی ہے) تو وہ سستی کرنے والا منافق کہتا ہے۔ قَالَ قَدْ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیَّ اِذْ لَمْ اَکُنْ مَّعَہُمْ شَہِیْدًا (وہ کہتا ہے اللہ تعالیٰ نے مجھ پر انعام کردیا کہ میں ان کے ساتھ موجود نہ تھا) شہید کا معنی حاضر و موجود (ورنہ مجھے بھی ویسی مصیبت پہنچتی جیسی ان کو پہنچی)
Top