Madarik-ut-Tanzil - An-Nisaa : 75
وَ مَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآءِ وَ الْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اَخْرِجْنَا مِنْ هٰذِهِ الْقَرْیَةِ الظَّالِمِ اَهْلُهَا١ۚ وَ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ وَلِیًّا١ۙۚ وَّ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ نَصِیْرًاؕ
وَمَا : اور کیا لَكُمْ : تمہیں لَا تُقَاتِلُوْنَ : تم نہیں لڑتے فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ وَ : اور الْمُسْتَضْعَفِيْنَ : کمزور (بےبس) مِنَ : سے الرِّجَالِ : مرد (جمع) وَ النِّسَآءِ : اور عورتیں وَ الْوِلْدَانِ : اور بچے الَّذِيْنَ : جو يَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں (دعا) رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اَخْرِجْنَا : ہمیں نکال مِنْ : سے ھٰذِهِ : اس الْقَرْيَةِ : بستی الظَّالِمِ : ظالم اَهْلُھَا : اس کے رہنے والے وَاجْعَلْ : اور بنا دے لَّنَا : ہمارے لیے مِنْ : سے لَّدُنْكَ : اپنے پاس وَلِيًّۢا : دوست (حمایتی) وَّاجْعَلْ : اور بنادے لَّنَا : ہمارے لیے مِنْ : سے لَّدُنْكَ : اپنے پاس نَصِيْرًا : مددگار
اور تم کو کیا ہوا ہے کہ خدا کی راہ میں ان بےبس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو دعائیں کیا کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہم کو اس شہر سے جس کے رہنے والے ظالم ہیں نکال کر کہیں اور لے جا اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا حامی بنا اور اپنی ہی طرف سے کسی کو ہمارا مددگار مقرر فرما
آیت 75 : وَمَا لَکُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ (اور تمہارے پاس کیا عذر ہے۔ کہ تم جہاد نہ کرو اللہ تعالیٰ کی راہ میں حالانکہ کمزور) ۔ نحو : ما مبتداء لکم خبر ہے۔ یہ استفہام نفی میں سستی پر متنبہ کرنے کے لئے اور اثبات میں انکار کے لئے ہے۔ لَاتقاتلونیہ حال ہے۔ اور اس میں عامل استقرار ہے۔ یہ اسی طرح ہے جیسا محاورے میں کہتے ہیں مالک قائمًا۔ تو کیوں کھڑا ہے ؟ اب مطلب یہ ہوا۔ تمہیں کیا ہوگیا کہ تم قتال چھوڑنے والے ہو حالانکہ اس کے دواعی موجود ہیں۔ مستضعفین کون لوگ ہیں ؟ المستضعفین یہ حالت جری میں ہے کیونکہ سبیل اللّٰہپر اس کا عطف ہے۔ یعنی فی سبیل اللہ وفی خلاص المستضعفین۔ یا مستضعفین کی حالت نصبی ہے۔ ای اختص من سبیل اللہ خلاص المستضعفین۔ من المستضعفین۔ کیونکہ سبیل اللہ تو ہر خیر میں عام ہے۔ اور کمزور مسلمانوں کو کفار کے ہاتھوں سے چھوڑانا یہ بھلائی کے اعلیٰ و خاص طرق میں سے ہے۔ مستضعفین سے مراد مکہ میں وہ اسلام لانے والے جن کو کفار نے ہجرت سے روک دیا۔ چناچہ وہ کفار کے درمیان کمزور و عاجز ہو کر رہے۔ ان سے سخت ایذاء پاتے رہے۔ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآئِ وَالْوِلْدَانِ (مرد اور عورتیں اور بچے) یہاں بچوں کا تذکرہ ان کے افراط ظلم کو بیان کرنے کے لئے ہے کہ ان کی ایذاء سے نابالغ بچے بھی محفوظ نہ رہے۔ بچوں کو ایذاء ان کے والدین کو تنگ کرنے کے لئے تھی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ کمزور لوگ اپنے بچوں کو دعائوں میں شریک کرتے تاکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت جلد نازل ہو۔ کیونکہ چھوٹے بچے گناہوں سے پاک ہوتے ہیں جیسا کہ قوم یونس ( علیہ السلام) نے کیا حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ میں اور میری والدہ بھی ان مستضعفین میں سے تھے۔ کمزوروں کی دعا : الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ہٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَہْلُہَا ( وہ لوگ جو کہتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں اس بستی سے نکال جس کے رہنے والے ظالم ہیں) القریۃ سے مراد مکہ ہے۔ الظالم یہ قریہ کی صفت ہے۔ مگر اس کا اسناد اہلہا کی طرف ہے۔ وہ اس کا فاعل ہے۔ اس کا اعراب القریہ والا ہے۔ کیونکہ یہ اس کی صفت ہے اور اہل اس کا موصوف ہے۔ اس لئے اس کی تذکیر اس کے مذکر لانے کا سبب ہے۔ جیسا کہتے ہیں۔ من ہذہ القریۃ التی ظلم اہلھا۔ معاون کی مراد : وَاجْعَلْ لَّـنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا (اور تو مقرر فرما ہمارے لئے اپنی طرف سے مددگار) جو ہمارے معاملے کا ذمہ دار بنے اور ہمیں دشمنوں کے چنگل سے چھڑائے۔ وَّاجْعَلْ لَّـنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا (اور تو مقرر فرما ہمارے لئے اپنی طرف سے ایسا معاون) جو ان کے خلاف ہماری مدد کرے۔ وہ اخلاص سے دعا کرتے اور اس سے مدد مانگتے۔ چناچہ بعض کو مدینہ منورہ منتقل ہونا میسر آگیا۔ اور بعض تو فتح مکہ تک رہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے بہتر ولی و ناصر مقرر فرما دیا۔ اور وہ محمد ﷺ تھے۔ پس آپ ان کے بہترین نگران بنے۔ اور ان کی زبردست مدد فرمائی۔ جب آپ مکہ مکرمہ سے روانہ ہوئے تو عتاب بن اسید ؓ کو حاکم مقرر کیا۔ پس لوگوں نے ان کی طرف سے اسی طرح ولایت ونصرت پائی جیسا ان کو چاہیے تھی۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا۔ وہ کمزور کی طاقت ور کے خلاف مدد کرتے۔ یہاں تک کہ وہ ظالموں سے زیادہ عزت والے ہوگئے۔
Top