Madarik-ut-Tanzil - An-Nisaa : 90
اِلَّا الَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ اِلٰى قَوْمٍۭ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَهُمْ مِّیْثَاقٌ اَوْ جَآءُوْكُمْ حَصِرَتْ صُدُوْرُهُمْ اَنْ یُّقَاتِلُوْكُمْ اَوْ یُقَاتِلُوْا قَوْمَهُمْ١ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَسَلَّطَهُمْ عَلَیْكُمْ فَلَقٰتَلُوْكُمْ١ۚ فَاِنِ اعْتَزَلُوْكُمْ فَلَمْ یُقَاتِلُوْكُمْ وَ اَلْقَوْا اِلَیْكُمُ السَّلَمَ١ۙ فَمَا جَعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ عَلَیْهِمْ سَبِیْلًا
اِلَّا : مگر الَّذِيْنَ : جو لوگ يَصِلُوْنَ : مل گئے ہیں (تعلق رکھتے ہیں اِلٰى : طرف (سے) قَوْمٍ : قوم بَيْنَكُمْ : تمہارے درمیان وَبَيْنَھُمْ : اور ان کے درمیان مِّيْثَاقٌ : عہد (معاہدہ) اَوْ : یا جَآءُوْكُمْ : وہ تمہارے پاس آئیں حَصِرَتْ : تنگ ہوگئے صُدُوْرُھُمْ : ان کے سینے (ان کے دل) اَنْ : کہ يُّقَاتِلُوْكُمْ : وہ تم سے لڑیں اَوْ : یا يُقَاتِلُوْا : لڑیں قَوْمَھُمْ : اپنی قوم سے وَلَوْ : اور اگر شَآءَ اللّٰهُ : چاہتا اللہ لَسَلَّطَھُمْ : انہیں مسلط کردیتا عَلَيْكُمْ : تم پر فَلَقٰتَلُوْكُمْ : تو یہ تم سے ضرور لڑتے فَاِنِ : پھر اگر اعْتَزَلُوْكُمْ : تم سے کنارہ کش ہوں فَلَمْ : پھر نہ يُقَاتِلُوْكُمْ : وہ تم سے لڑیں وَ : اور اَلْقَوْا : ڈالیں اِلَيْكُمُ : تمہاری طرف السَّلَمَ : صلح فَمَا جَعَل : تو نہیں دی اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لیے عَلَيْهِمْ : ان پر سَبِيْلًا : کوئی راہ
مگر جو لوگ ایسے لوگوں سے جا ملے ہوں جن میں اور تم میں (صلح کا) عہد ہو یا اس حال میں کہ ان کے دل تمہارے ساتھ یا اپنی قوم کے ساتھ لڑنے سے رک گئے ہوں تمہارے پاس آجائیں (تو احتراز ضرور نہیں) اور اگر خدا چاہتا تو ان کو تم پر غالب کردیتا تو وہ تم سے ضرور لڑتے پھر اگر وہ تم سے (جنگ کرنے سے) کنارہ کشی کریں اور لڑیں نہیں اور تمہاری طرف صلح (کا پیغام) بھیجیں تو خدا نے تمہارے لئے ان پر (زبردستی کرنے کی) کوئی سبیل مقرر نہیں کی
معاہدہ والوں کا قتل جائز نہیں : آیت 90 : اِلاَّ الَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ اِلٰی قَوْمٍ (سوائے ان لوگوں کے جو ایسی قوم کے پاس پہنچ جائیں جن سے تمہارا معاہدہ ہے) یصلونکا معنی پہنچ کر ان سے تعلق قائم کرلیں۔ یہ خذوہم واقتلوہم سے استثناء ہے۔ موالات کی طمع میں قتل مت ترک کرو۔ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَہُمْ مِّیْثَاقٌ (تمہارے اور ان کے درمیان میثاق و معاہدہ ہو) اس سے مراد اسلمی لوگ ہیں۔ ان کے اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان معاہدہ ہوا اور اس کا واقعہ اس طرح تھا کہ ہلال بن عویمر اسلمی کے مکہ جانے سے پہلے اس کے اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا۔ کہ ہلال نہ رسول اللہ ﷺ کی مدد کریگا اور نہ رسول اللہ ﷺ کے دشمنوں کی مدد کریگا۔ اور جو شخص ہلال کی پناہ میں آجائے گا۔ خواہ وہ قبیلہ کا ہو یا غیر قبیلہ کا اس کو بھی ہلال کی طرح پناہ حاصل ہوگی۔ نہ قتل کیا جائے گا اور نہ گرفتار مطلب یہ ہوا کہ ان کو قتل کرو مگر وہ لوگ جو تمہارے اور ان کے درمیان معاہدہ کی وجہ سے متصل ہوجائیں۔ اَوْ جَآءُ وْکُمْ (یا وہ تمہارے پاس آجائیں) : اس کا عطف قوم کی صفت پر ہے تقدیر عبارت یہ ہے : الا الذین یصلون الی قوم معاہدین او قوم ممسکین عن القتال لا لکم ولا علیکم۔ مگر وہ لوگ جو ایسی قوم سے مل جائیں جو معاہدہ والی ہو یا ایسی قوم سے جو مسلمانوں کے ساتھ لڑائی سے رکنے والی ہو نہ تو وہ تمہارے حق میں ہوں اور نہ وہ تمہارے مخالف ہوں یا اس کا عطف الذین کے صلہ پر ہے۔ تقدیر عبارت یہ ہے : اِلا الذین یتصلون بالمعا ہدین او الذین لایقاتلونکم۔ مگر وہ لوگ جو مل جائیں معاہدین کے ساتھ یا ان لوگوں کے ساتھ جو تم سے لڑنے والے نہیں ہیں۔ حَصِرَتْ صُدُوْرُہُمْ اَنْ یُّقَاتِلُوْکُمْ اَوْ یُقَاتِلُوْا قَوْمَہُمْ (ان کے دل میں نفرت ہے۔ تمہارے ساتھ لڑنے سے اور اپنی قوم سے لڑنے سے) الحصر۔ تنگی اور گھٹن۔ نحو : قد کو مضمر مان کر حصرت صدور ہم حال ہے۔ اور ان یقاتلوکم میں اَنْ کے بعد عَنْ محذوف ہے ای عن قتالہم۔ یقاتلوا قومہم سے مراد تمہارے ساتھ مل کر اپنی قوم سے لڑنا ہے۔ وَلَوْ شَآئَ اللّٰہُ لَسَلَّطَہُمْ عَلَیْکُمْ (اگر اللہ تعالیٰ چاہتے تو ان کو تم پر مسلط کردیتے) انکے دلوں کو مضبوط کردیتے اور نفرت قتال کو دور کردیتے۔ فَلَقٰـتَلُوْکُمْ (اور وہ تم سے جنگ کرتے) : اس کا عطف لسلطہم پر ہے۔ اور لام کو تاکید کے لئے داخل کیا۔ تاکہ معلوم ہوجائے کہ دونوں کا مجموعہ جزاء نہیں بلکہ ہر ایک مستقل جزاء ہے۔ کیونکہ تسلط کے بعد لڑنا ضروری نہیں۔ فَاِنِ اعْتَزَلُوْکُمْ (اگر وہ تم سے کنارہ کش رہیں) اور تعرض نہ کریں۔ فَلَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ وَاَلْقَوْا اِلَیْکُمُ السَّلَمَ (اور وہ تم سے نہ لڑیں اور تم سے صلح کا سلوک کریں) یعنی اطاعت و فرمانبرداری۔ فَمَا جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمْ عَلَیْہِمْ سَبِیْلًا (تو اللہ تعالیٰ نے تم کو ان پر کوئی راہ نہیں دی) یعنی ان سے قتال کی اجازت نہیں دی۔
Top