Madarik-ut-Tanzil - Al-Ghaafir : 42
تَدْعُوْنَنِیْ لِاَكْفُرَ بِاللّٰهِ وَ اُشْرِكَ بِهٖ مَا لَیْسَ لِیْ بِهٖ عِلْمٌ١٘ وَّ اَنَا اَدْعُوْكُمْ اِلَى الْعَزِیْزِ الْغَفَّارِ
تَدْعُوْنَنِيْ : تم بلاتے ہو مجھے لِاَكْفُرَ : کہ میں انکار کروں بِاللّٰهِ : اللہ کا وَاُشْرِكَ بِهٖ : اور میں شریک ٹھہراؤں۔ اس کے ساتھ مَا لَيْسَ لِيْ : جو۔ نہیں ۔ مجھے بِهٖ عِلْمٌ ۡ : اس کا علم وَّاَنَا اَدْعُوْكُمْ : اور میں بلاتا ہوں اِلَى : طرف الْعَزِيْزِ : غالب الْغَفَّارِ : بخشنے والا
تم مجھے اس لئے بلاتے ہو کہ خدا کے ساتھ کفر کروں اور اس چیز کو اس کا شریک مقرر کروں جس کا مجھے کچھ بھی علم نہیں، اور میں تم کو (خدائے) غالب (اور) بخشنے والے کی طرف بلاتا ہوں
جب معبود ہونے کی دلیل نہیں تو اسے معبود ماننا درست نہیں : تَدْعُوْنَنِيْ لِاَكْفُرَ بِاللّٰهِ (تم مجھ کو اس بات کی طرف بلاتے ہو کہ میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کروں) یہ پہلے تدعوننی سے بدل ہے عرب کہتے ہیں، دعاہ الی کذا و دعاہ لہ۔ دونوں کا معنی ایک ہے جیسا کہا جاتا ہے۔ ھداہ الی الطریق وھداہ لہ۔ دونوں صلے الی اور لام استعمال ہوتے ہیں۔ وَاُشْرِكَ بِهٖ مَا لَيْسَ لِيْ بِهٖ عِلْمٌ (اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسی چیز کو اس کا ساجھی بناؤں جس کی میرے پاس کوئی بھی دلیل نہیں) یعنی اس کی ربوبیت کی۔ اگرچہ یہاں نفی علم کی کی ہے مگر اس سے نفی معلوم کی گئی ہے۔ گویا اس طرح کہا اور میں اس کے ساتھ اس کو شریک بناؤں جو معبود نہیں اور جو معبود نہیں یہ کیسے صحیح یہ کیسے صحیح ہے کہ اس کو معبود کے طور پر جانا جائے ؟ یعنی جب اس کے معبود ہونے کی کوئی دلیل نہیں تو پھر اس کا معبود ماننا ہی صحیح نہیں۔ ۡ وَّاَنَا اَدْعُوْكُمْ اِلَى الْعَزِيْزِ الْغَفَّارِ (اور میں تم کو اللہ تعالیٰ زبردست خطائیں بخش دینے والے کی طرف بلاتا ہوں) ۔ وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہیں۔ نداء کو دوبارہ لانا تنبیہ میں اضافہ کی خاطر ہے اور غفلت کا ازالہ مطلوب ہے اور اس سے یہ ابت بھی واضح ہوتی ہے کہ قبطی اس کی قوم تھی اور وہ آل فرعون کا فرد تھا۔ واؤ کا نکتہ : ندائے ثالث میں واؤ لائی گئی جبکہ ندائے دوم میں نہیں آئی کیونکہ ندائے ثانی ایسی کلام پر داخل ہے جو بیان مجمل اور تفسیر مبہم کے لیے ہے تیسری نداء ایسی نہیں اس لیے اس پر واؤ لائے۔
Top