Madarik-ut-Tanzil - Az-Zukhruf : 11
وَ الَّذِیْ نَزَّلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءًۢ بِقَدَرٍ١ۚ فَاَنْشَرْنَا بِهٖ بَلْدَةً مَّیْتًا١ۚ كَذٰلِكَ تُخْرَجُوْنَ
وَالَّذِيْ نَزَّلَ : اور وہی ذات ہے جس نے نازل کیا مِنَ السَّمَآءِ : آسمان سے مَآءًۢ : پانی بِقَدَرٍ : ساتھ اندازے کے فَاَنْشَرْنَا بِهٖ : پھر زندہ کیا ہم نے ساتھ اس کے بَلْدَةً مَّيْتًا : مردہ زمین کو كَذٰلِكَ : اسی طرح تُخْرَجُوْنَ : تم نکالو جاؤ گے
اور جس نے ایک اندازے کے ساتھ آسمان سے پانی نازل کیا پھر ہم نے اس سے شہر مردہ کو زندہ کیا اسی طرح تم (زمین سے) نکالے جاؤ گے
آیت 11: وَالَّذِیْ نَزَّلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئًم بِقَدَرٍ (اور وہ جس نے آسمان سے پانی ایک اندازہ سے برسایا) اتنی مقدار جس سے انسان صحیح سالم رہ سکیں اور ملکوں کو جتنی ضرورت ہو وہ پوری ہوجائے۔ فَاَنْشَرْنَا بِہٖ بَلْدَۃً مَّیْتًا (پھر اس سے ہم نے خشک زمین کو زندہ کیا) انشرنا۔ زندہ کرنے کے معنی میں ہے۔ غائب سے مخاطب کی طرف عدول کرنے کا مقصد یہ ہے تاکہ یہ خطاب سے مراد کو پالیں۔ قراءت : یزید نے میتًا کو میّتًا پڑھا ہے۔ کَذٰلِکَ تُخْرَجُوْنَ (اسی طرح تم نکالے جائو گے) اپنی قبور سے زندہ کر کے۔ قراءت : حمزہ ٗ علی نے تَخْرُجون پڑھا۔ العلیم پر وقف نہیں۔ کیونکہ الذی اس کی صفت ہے۔ ابو حاتم نے اس پر وقف کیا۔ تقدیر کلام یہ ہے ہو الذی۔ کیونکہ یہ اوصاف کفار کا مقولہ نہیں۔ کیونکہ وہ قبور سے نکلنے کے منکر ہیں۔ تو وہ کیسے کہتے کذلک تخرجون۔ بلکہ یہ آیت تو انکار بعث کرنے والوں کے خلاف حجت ہے۔
Top