Madarik-ut-Tanzil - Az-Zukhruf : 57
وَ لَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْیَمَ مَثَلًا اِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ یَصِدُّوْنَ
وَلَمَّا ضُرِبَ : اور جب بیان کیا گیا ابْنُ مَرْيَمَ : مریم کے بیٹے کو مَثَلًا : بطور مثال اِذَا قَوْمُكَ : اچانک تیری قوم مِنْهُ يَصِدُّوْنَ : اس سے تالیاں بجاتی ہے۔ چلاتی ہے
اور جب مریم کے بیٹے (عیسیٰ ) کا حال بیان کیا گیا تو تمہاری قوم کے لوگ اس سے چلا اٹھے
عیسیٰ ( علیہ السلام) کی مثال : آیت 57: وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْیَمَ مَثَلاً (جب ابن مریم کے متعلق ایک عجیب مضمون بیان کیا گیا) جب رسول اللہ ﷺ نے قریش کے سامنے انکم وما تعبدون من دون اللّٰہ حصب جہنم۔] الانبیاء۔ 98[ تلاوت فرمائی تو۔ قریش غصے کے مارے لال پیلے ہوگئے۔ ابن الزبعری کہنے لگا اے محمد ﷺ ! کیا یہ بات خاص ہمارے لئے اور ہمارے معبودوں کے لئے ہے۔ یا تمام امتوں کے لئے آپ نے فرمایا۔ یہ تمہارے لئے اور تمہارے معبودوں اور تمام امتوں کے لئے ہے۔ اس پر وہ کہنے لگا۔ کیا تمہارا یہ اعتقاد نہیں عیسیٰ بن مریم نبی ہیں۔ اور تم عیسیٰ اور اس کی امت کی تعریف کرتے ہو۔ اور تمہیں معلوم ہے کہ نصاریٰ تو عیسیٰ کی عبادت کرتے ہیں۔ اور عزیر اور ملائکہ کو پوجا جاتا ہے۔ اگر یہ سب آگ میں جائیں گے۔ تو ہم راضی ہیں کہ ہم اور ہمارے معبود ان کے ساتھ ساتھ رہیں۔ اس کی یہ باتیں سن کر آپ نے خاموشی اختیار فرمائی۔ تو قریش بڑے خوش ہوئے خوب ہنسی اڑائی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ ان الذین سبقت لہم منا الحسنٰی… (الانبیاء۔ 101) ابن زبعری کا جھگڑا : پھر یہ آیت نازل ہوئی۔ (رواہ الثعلبی والبغوی) مطلب یہ ہے۔ جب ابن زبعری نے عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کو اپنے معبودوں کے لئے بطور مثال بیان کیا اور عبادت نصاری کو دلیل بنا کر آپ سے مجادلہ کرنے لگا۔ اِذَا قَوْمُکَ (تو اچانک آپ کی قوم کے لوگ) یعنی قریش مِنْہُ (اس مثال سے) یَصِدُّوْنَ (چلانے لگے) ابن زبعری کی بات پر جب آپ کی خاموشی دیکھی تو خوشی سے مچلنے لگے اور ٹھٹھہ سے ہنسنے لگے۔ قراءت : یصُدّون مدنی ٗ علی ٗ شامی ٗ اعشی نے پڑھا اور اس کو الصدود سے لیا ہے۔ یعنی اس مثال کی وجہ سے وہ حق سے رکتے اور اعراض کرتے ہیں۔ ایک قول یہ ہے : یہ الصدید سے ہے۔ جس کا معنی غل غپاڑا کرنا ہے۔ اور یہ دونوں لغتیں ہیں۔ جیسا یَعْکِفُ ٗ یَعْکُفُ ۔
Top