Madarik-ut-Tanzil - Al-Maaida : 105
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْكُمْ اَنْفُسَكُمْ١ۚ لَا یَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَیْتُمْ١ؕ اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِیْعًا فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والے عَلَيْكُمْ : تم پر اَنْفُسَكُمْ : اپنی جانیں لَا يَضُرُّكُمْ : نہ نقصان پہنچائے گا مَّنْ : جو ضَلَّ : گمراہ ہوا اِذَا : جب اهْتَدَيْتُمْ : ہدایت پر ہو اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف مَرْجِعُكُمْ : تمہیں لوٹنا ہے جَمِيْعًا : سب فَيُنَبِّئُكُمْ : پھر وہ تمہیں جتلا دے گا بِمَا : جو كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے تھے
اے ایمان والوں ! اپنی جانوں کی حفاظت کرو۔ جب تم ہدایت پر ہو تو کوئی گمراہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ تم سب کو خدا کی طرف لوٹ جانا ہے اس وقت وہ تم کو تمہارے سب کاموں سے جو (دنیا) (میں) کئے تھے آگاہ کریگا اور ان کا بدلہ دے گا
اہل عناد کے متعلق خود کو گھلانے (غمگین ہونے) کی ضرورت نہیں : آیت 105: یٰٓـاَ ۔ یُّہَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ ۔ (اے ایمان والو ! تم اپنی فکر کرو) انفسکم منصوب ہے علیکم کی وجہ سے اور علیکم اسمائے افعال میں سے ہے یعنی اپنے نفوس کی اصلاح کو لازم پکڑو۔ اس میں کاف اور میم موضع جر میں ہیں۔ کیونکہ اسم فعل وہ جار مجرور ہے۔ فقط عَلٰی اکیلا نہیں۔ لَا یَضُرُّکُمْ یہ جملہ مستانفہ ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے یا جواب او کی وجہ سے مجزوم ہے۔ اور راء کا ضمہ تو ضمہ ضاد کی اتباع میں دیا گیا ہے مَّنْ ضَلَّ اِذَا اہْتَدَیْتُمْ مومن اپنی جانیں اہل عناد کفار پر گھلاتے اور ان کے اسلام میں داخل ہونے کی تمنا کرتے پس ان مسلمانوں کو کہا گیا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْتم اپنے نفوس کو لازم پکڑو۔ جن کی اصلاح کے تم ذمہ دار بنائے گئے ہو۔ لَایَضُرُّکُمْ تمہیں ان کا گمراہ ہونا تمہارے دین سے نقصان نہیں دے گا۔ جبکہ تم ہدایت پر ہو۔ یہاں یہ مراد نہیں کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کردیا جائے۔ کیونکہ ان کا ترک قدرت کے باوجود جائز نہیں۔ اِلَی اللّٰہِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیْعًاتم سب نے اللہ کی طرف لوٹنا ہے۔ فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَپھر وہ تمہارے اعمال پر تمہیں بدلہ دے گا۔
Top