Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 266
یَسْئَلُوْنَكَ مَا ذَاۤ اُحِلَّ لَهُمْ١ؕ قُلْ اُحِلَّ لَكُمُ الطَّیِّبٰتُ١ۙ وَ مَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِیْنَ تُعَلِّمُوْنَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللّٰهُ١٘ فَكُلُوْا مِمَّاۤ اَمْسَكْنَ عَلَیْكُمْ وَ اذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَیْهِ١۪ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ
يَسْئَلُوْنَكَ : آپ سے پوچھتے ہیں مَاذَآ : کیا اُحِلَّ : حلال کیا گیا لَهُمْ : ان کے لیے قُلْ : کہ دیں اُحِلَّ : حلال کی گئیں لَكُمُ : تمہارے لیے الطَّيِّبٰتُ : پاک چیزیں وَمَا : اور جو عَلَّمْتُمْ : تم سدھاؤ مِّنَ : سے الْجَوَارِحِ : شکاری جانور مُكَلِّبِيْنَ : شکار پر دوڑائے ہوئے تُعَلِّمُوْنَهُنَّ : تم انہیں سکھاتے ہو مِمَّا : اس سے جو عَلَّمَكُمُ : تمہیں سکھایا اللّٰهُ : اللہ فَكُلُوْا : پس تم کھاؤ مِمَّآ : اس سے جو اَمْسَكْنَ : وہ پکڑ رکھیں عَلَيْكُمْ : تمہارے لیے وَاذْكُرُوا : اور یاد کرو (لو) اسْمَ : نام اللّٰهِ : اللہ عَلَيْهِ : اس پر وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ سَرِيْعُ : جلد لینے والا الْحِسَابِ : حساب
تم سے پوچھتے ہیں کہ کون کون سی چیزیں ان کے لئے حلال ہیں (ان سے) کہہ دو کہ سب پاکیزہ چیزیں تم کو حلال ہیں۔ اور وہ (شکار) بھی حلال ہے جو تمہارے لئے ان شکاری جانوروں نے پکڑا ہو جن کو تم نے سدھا رکھا ہو۔ اور جس (طریق) سے خدا نے تمہیں (شکار کرنا) سکھایا ہے۔ (اس طریق سے) تم نے انکو سکھایا ہو تو جو شکار وہ تمہارے لئے پکڑ رکھیں اس کو کھالیا کرو اور (شکاری جانوروں کے چھوڑنے وقت) خدا کا نام لیا کرو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو۔ بیشک خدا جلد حساب لینے والا ہے۔
حلال شکار کا بیان : آیت 4 : یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَآ اُحِلَّ لَہُمْ قُلْ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ وَمَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ مُکَلِّبِیْنَ تُعَلِّمُوْنَہُنَّ مِمَّا عَلَّمَکُمُ اللّٰہُ فَکُلُوْا مِمَّآ اَمْسَکْنَ عَلَیْکُمْ وَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ ۔ یَسْئَلُوْنَکَ (اس میں قول کا معنی پایا جاتا ہے۔ اس لیے اس کے بعد ماذا احل لہم وارد ہوا ہے۔ گویا اس طرح فرمایا۔ (وہ آپ کو کہتے ہیں کہ ہمارے لیے کیا کیا چیزیں حلال ہیں) مَاذَآ اُحِلَّ لَہُمْ ۔ ماذا احل لنا نہیں کہا۔ کہ ان کے قول کی حکایت بنے۔ کیونکہ یسئلونک خود غائب کے صیغہ کے ساتھ لایا گیا ہے۔ یہ اسی طرح ہے جیسے کہتے ہیں۔ اقسم زید لیفعلن اور اگر لیفعلن کی بجائے لافعلن کہتے تو تب بھی درست تھا۔ اسی طرح احل لنا کہتے تو درست تھا۔ نحو : ماذا، مبتداء اور احل لہم یہ اس کی خبر ہے یہ اس طرح ہے کہ جیسے تم کہو ایّ شیٔ احل لہم ؟ مطلب یہ ہوا کہ ان کے لئے کون سی کھانے والی چیزیں حلال ہیں گویا کہ جب آپ نے ان پر حرام و خبیث ماکولات پڑھیں تو انہوں نے سوال کیا ان چیزوں کے متعلق جو ماکولات میں سے ان کے لیے حلال ہیں۔ پس فرمایا۔ قُلْ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ (فرما دیں تمہارے لئے تمام وہ پاکیزہ چیزیں حلال ہیں) جو کہ خبیث نہیں۔ یا وہ تمام چیزیں حلال ہیں جن کی حرمت کتاب اللہ اور سنت و اجماع اور قیاس سے ثابت نہیں ہے وَمَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ (اور جن شکاری جانوروں کو تم نے سکھایا ہے) (ان کا کیا ہوا شکار حلال ہے) : وما علمتم کا عطف الطیبات پر ہے تقدیر عبارت یہ ہے احل لکم الطیبات وصید ما علمتم پس مضاف کو حذف کیا گیا ہے۔ یا ما شرطیہ ہے اور اس کا جواب فکلوا ہے۔ شکار کے متعلق ہدایات : الجوارح جو جانور یا پرندے شکار کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً کتا ٗ چیتا ٗ باز ٗ شکرہ ٗ بحری ٗ شاہین وغیرہ۔ بعض نے کہا کہ یہ جراحت سے ہے۔ پس حلال وہ تب ہوگا جب وہ زخم لگائے۔ مُکَلِّبِیْنَ (ٹریننگ دیئے ہوئے) یہ علمتم سے حال ہے۔ اور اس حال کا فائدہ باوجود یکہ علمتم کی وجہ سے خاص ضرورت نہ تھی۔ یہ ہے کہ جو آدمی ان جانوروں کو تعلیم دے وہ ٹریننگ کا ماہر ہونا چاہیے۔ مُکَلِّبْمکلب اس آدمی کو کہتے ہیں جو جانوروں کو تعلیم دے۔ یہ لفظ الکلب سے مشتق ہے اور کلاب میں عام طور پر یہ سلسلہ ہوتا ہے اور عام پائے جاتے ہیں۔ اس لئے اس کی جنس کو سیکھنے میں بقیہ پر غلبہ دے کر اسی سے لفظ ٗ مشتق کر کے تمام کے لئے استعمال کرلیا۔ دوسرا یہ قول بھی ہے کہ ہر درندے کو کلب کہتے ہیں۔ جیسا کہ حاکم کی روایت میں اللّٰہم سلط علیہ کلبًا من کلابک ہے تو اس میں شیر کو کلب کہا گیا۔ کیونکہ عتیبہ کو شیر نے کھایا تھا۔ تُعَلِّمُوْنَہُنَّ مِمَّا عَلَّمَکُمُ اللّٰہُ (اس طریقہ سے تم نے ان کو تعلیم دی جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں سکھایا) اس میں یہ واضح کردیا گیا۔ کہ ہر شکار پکڑنے والا یہ جان لے کہ وہ شکار اس وقت پکڑے جب اس کو ایسے جانور نے قتل کیا ہو جو سکھایا ہوا ہو۔ اور سمجھ بوجھ سے ذبح کیا ہو۔ کیونکہ بہت سے پکڑنے والے اپنے فن میں ناپختہ ہیں کہ انہوں نے اپنے اوقات کو ضائع کیا۔ اور جب علماء و ماہرین سے ملاقات ہوئی تو انگلیاں کاٹنے لگے۔ مما علمکم اللّٰہ سے مراد ٹریننگ ہے۔ فَکُلُوْا مِمَّآ اَمْسَکْنَ عَلَیْکُمْ (پس تم اس شکار میں سے کھالو جو وہ تمہارے لیے روک کر رکھیں) امساک علی صاحبہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس میں سے خود نہ کھائیں۔ اگر وہ خود کھا لیں تو ایسے شکار استعمال کے قابل نہیں۔ جبکہ کتے وغیرہ کا شکار ہو۔ البتہ باز وغیرہ کا شکار ہو تو کھا لینے سے حرام نہیں ہوگا۔ اور یہ مسئلہ اپنے مقام پر بیان کردیا گیا ہے۔ وَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْہِ (اور ان پر اللہ کا نام لو) اذکروا کی ضمیرما امسکن کی طرف لوٹتی ہے۔ مطلب یہ ہوگا کہ جب تم کو ان کے ذبح کا موقع مل جائے تو ان پر اللہ تعالیٰ کا نام لو۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ ضمیر ما علمتم کی طرف لوٹتی ہے۔ کہ جب تم ان کو چھوڑنے لگو تو اس وقت اللہ کا نام لے کر چھوڑو۔ وَاتَّقُوا اللّٰہَ (اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو) اور اس کے حکم کی مخالفت کرنے سے ان تمام معاملات میں بچو۔ اِنَّ اللّٰہَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ (بیشک اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والے ہیں) وہ تمہارے اعمال کا خود محاسبہ کریں گے۔ اور محاسبہ کرنے میں اس کو انتظار کی بھی ضرورت نہیں۔
Top