Madarik-ut-Tanzil - Al-Maaida : 76
قُلْ اَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّ لَا نَفْعًا١ؕ وَ اللّٰهُ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
قُلْ : کہ دیں اَتَعْبُدُوْنَ : کیا تم پوجتے ہو مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا مَا : جو لَا يَمْلِكُ : مالک نہیں لَكُمْ : تمہارے لیے ضَرًّا : نقصان وَّلَا نَفْعًا : اور نہ نفع وَاللّٰهُ : اور اللہ هُوَ : وہی السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
کہو کہ تم خدا کے سوا ایسی چیز کی کیوں پرستش کرتے ہو جس کو تمہارے نفع اور نقصان کا کچھ بھی اخیتار نہیں ؟ اور خدا ہی سب کچھ سنتا جانتا ہے۔
ذرہ بھر نفع و نقصان پر قدرت نہ رکھنے والا قادر مطلق کیسے بن گیا : آیت 76 : قُلْ اَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَالَا یَمْلِکُ لَکُمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا۔ (کیا تم اللہ کے سواء ان چیزوں کو پوجتے ہو جو ذرہ بھر نفع نقصان کا اختیار نہیں رکھتے) من دون اللّٰہ سے مراد حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ایسی چیزیں جو تمہیں نقصان پہنچانے کی طاقت نہ رکھتی ہوں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ بلاء و مصائب تمہارے انفس و اموال میں اتارتے ہیں۔ اور نہ ہی وہ چیزیں جو تمہیں نفع دے سکیں۔ جیسے اللہ تعالیٰ بدن میں صحت اور وسعت رزق اور خوشحالی عنایت فرماتے ہیں۔ اور اس لیے بھی کہ انسان جس نفع و نقصان کی طاقت رکھتا ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کے پیدا کرنے سے ہے گویا کہ انسان کو اس پر بھی ذرہ بھر اختیار نہیں۔ اور یہ قطعی دلیل ہے کہ ان کا معاملہ ربوبیت کے منافی ہے۔ اس لئے کہ ان کو اس طرح قرار دیا۔ کہ وہ ذرہ بھر نفع و نقصان کی طاقت نہیں رکھتے۔ اور ربوبیت کی صفت تو یہ ہے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ کوئی مقدور اس کی قدرت سے نکل نہیں سکتا۔ وَاللّٰہُ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ یہ اتعبدون سے متعلق ہے مطلب یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کرتے ہو۔ اور اس سے ڈرتے نہیں ہو۔ حالانکہ وہ تمہاری تمام باتوں کو سننے والا اور تمہارے تمام اعتقادات کا علم رکھنے والا ہے۔
Top