Madarik-ut-Tanzil - Al-Maaida : 94
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَیَبْلُوَنَّكُمُ اللّٰهُ بِشَیْءٍ مِّنَ الصَّیْدِ تَنَالُهٗۤ اَیْدِیْكُمْ وَ رِمَاحُكُمْ لِیَعْلَمَ اللّٰهُ مَنْ یَّخَافُهٗ بِالْغَیْبِ١ۚ فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والو لَيَبْلُوَنَّكُمُ : ضرور تمہیں آزمائے گا اللّٰهُ : اللہ بِشَيْءٍ : کچھ (کسی قدر) مِّنَ : سے الصَّيْدِ : شکار تَنَالُهٗٓ : اس تک پہنچتے ہیں اَيْدِيْكُمْ : تمہارے ہاتھ وَرِمَاحُكُمْ : اور تمہارے نیزے لِيَعْلَمَ اللّٰهُ : تاکہ اللہ معلوم کرلے مَنْ : کون يَّخَافُهٗ : اس سے ڈرتا ہے بِالْغَيْبِ : بن دیکھے فَمَنِ : سو جو۔ جس اعْتَدٰي : زیادتی کی بَعْدَ ذٰلِكَ : اس کے بعد فَلَهٗ : سو اس کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
مومنو ! کسی قدر شکار سے جن کو تم ہاتھوں اور نیزوں سے پکڑ سکو خدا تمہاری آزمائش کرے گا (یعنی حالت احرام میں شکار کی ممانعت سے) تاکہ معلوم کرے کہ اس سے غائبانہ کون ڈرتا ہے تو جو اس کے بعد زیادتی کرے اس کے لئے دکھ دینے والا عذاب (تیار) ہے۔
: آیت 94: جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کا حدیبیہ والے سال شکار کے ذریعے امتحان لیا۔ صحابہ کرام ؓ حالت احرام میں تھے۔ شکار کی کثرت تھی۔ یہاں تک کہ کجاو وں کے گرد شکار جمع ہوجاتے۔ جن کو ہاتھ سے پکڑا جاسکتا تھا۔ اور نیزوں کے ذریعے شکار کیا جاسکتا تھا تو یہ آیت اتری : حدیبیہ والے سال شکار سے آزمائش : یٰٓـاَ ۔ یُّہَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا لَیَبْلُوَنَّکُمُ اللّٰہُ بِشَیْئٍ مِّنَ الصَّیْدِ تَنَالُہٗ اَ یْدِیْکُمْ وَرِمَا حُکُمْ یبلو کا معنی امتحان لینا ہے۔ اللہ کی طرف سے جب ہو تو اس کا مطلب اب بندے کے متعلق اللہ تعالیٰ کے علم میں جو ہے اس کو ظاہر کرنے کے لئے (نعوذ باللہ) یہ امتحان غیر معلوم کو معلوم کرنے کے لئے نہیں ہوتا۔ من یہ تبعیضیہ ہے کیونکہ ہر شکار حرام نہیں یا بیان جنس کے لئے ہے۔ لِیَعْلَمَ اللّٰہُ مَنْ یَّخَافُہٗ بِالْغَیْبِتاکہ اللہ تعالیٰ اپنے سے ڈرنے والے کا خوف ظاہر کر دے۔ کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈر کر موجودہ شکار سے رکتا ہے یا نہیں۔ جیسا کہ وہ اس کے وجود سے قبل جانتا ہے کہ ایسا پایا جائے گا۔ یہ اس لیے کہا تاکہ بندے کو اس کے عمل پر ثواب ملے نہ کہ اس علم پر جو وہ اس کے متعلق جانتا ہے۔ فَمَنِ اعْتَدٰی بَعْدَ ذٰلِکَ ۔ ذالک کا مشارٌالیہ ابتلاء ہے۔ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌاس کے لئے دردناک عذاب ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے ارشاد بشیٔ من الصید کہہ کر اس کو قلیل قرار دیا تاکہ معلوم ہوجائے یہ کوئی بڑی آزمائش نہیں۔ اور تنالہ یہ بشیٍٔ کی صفت ہے۔
Top