Madarik-ut-Tanzil - Adh-Dhaariyat : 56
وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ
وَمَا : اور نہیں خَلَقْتُ الْجِنَّ : پیدا کیا میں نے جنوں کو وَالْاِنْسَ : اور انسانوں کو اِلَّا : مگر لِيَعْبُدُوْنِ : اس لیے تاکہ وہ میری عبادت کریں
اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں
سیاق سے آیت خاص ہے : آیت 56 : وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْنِ (اور میں نے جن و انس کو اس لئے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کیا کریں) العبادۃ کا حقیقی معنی مراد لیں تو پھر آیت عام نہ بنے گی۔ بلکہ اس وقت اس سے مراد جن و انس میں سے مومن مراد ہونگے۔ اس کی دلیل سیاق آیت ہے۔ میری مراد یہ ہے وذکرفان الذکری تنفع المؤمنین۔ اور قراءت ابن عباس ؓ وما خلقت الجن والانس من المؤمنین اس کی تائید کرتی ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ درست نہیں کہ وہ ان لوگوں کو عبادت کے لئے پیدا کرے جن کے متعلق یہ معلوم ہے کہ وہ ایمان نہ لائیں گے۔ کیونکہ جب ان کو عبادت کے لئے پیدا کیا اور عبادت ان سے چاہی تو اس ارادہ کا ظہور لازم ہے اور ادھر جب وہ ایمان نہ لائے تو اس سے یہ معلوم ہوا کہ وہ جہنم کے لئے پیدا کیے گئے ہیں۔ جیسا کہ فرمایا۔ ولقد ذرأنا لجہنم کثیرًا من الجن والانس۔ ] الاعراف۔ 179[ ایک قول یہ ہے : میں نے جن و انس کو پیدا نہیں کیا مگر اس لئے تاکہ میں ان کو عبادت کا حکم دوں۔ یہ قول علی ؓ سے منقول ہے۔ (الالآمرہم بالعبادۃ) ایک اور قول : الالیکونوا عبادًالی۔ مگر اس لئے تاکہ وہ میرے بندے بن جائیں۔ بہترین توجیہ : عبادت کا معنی توحید لیا جائے۔ ابن عباس ؓ فرماتے تھے۔ کہ کل عبادۃ فی القرآن فہی توحید۔ کہ عبادت کا لفظ جہاں قرآن میں ہے وہاں توحید مراد ہے۔ اور تمام اللہ تعالیٰ کو آخرت میں وحدہ لاشریک مان لیں گے۔ جیسا کہ معلوم ہے اور کافر بھی آخرت میں مومن موحد ہونے کا اقرار کریں گے۔ جیسا کہ اس ارشاد الٰہی میں فرمایا۔ ثم لم تکن فتنتہم الا ان قالوا واللّٰہ ربنا ماکنا مشرکین ] الانعام۔ 23[ اگرچہ بعض نے دنیا میں شرک کیا لیکن دنیا کی مدت ابد کی بنسبت ایک دن سے بھی اقل قلیل ہے۔ جو شخص غلام خرید لے اور کہے۔ ما اشتریت الا للکتابۃ کان صادقا فی قولہ۔ ما اشتریتہ الا للکتابۃ اگرچہ وہ اس کی عمر غلامی میں کسی اور کام پر بھی لگائے۔ گویا معتد بہٖ مدت جو کام کرایا جائے وہ کل سے محاورہ میں تعبیر کردیا جاتا ہے۔
Top