Madarik-ut-Tanzil - Ar-Rahmaan : 29
یَسْئَلُهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ كُلَّ یَوْمٍ هُوَ فِیْ شَاْنٍۚ
يَسْئَلُهٗ : مانگتے ہیں اس سے مَنْ : جو بھی فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں ہیں وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین میں كُلَّ يَوْمٍ : ہر روز هُوَ فِيْ شَاْنٍ : وہ نئی شان میں ہے
آسمان اور زمین میں جتنے لوگ ہیں سب اسی سے مانگتے ہیں وہ ہر روز کام میں مصروف رہتا ہے
29 : یَسْئَلُہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (اسی سے سب آسمان و زمین والے مانگتے ہیں) قراءت : نافع نے اس پر وقف کیا ہے۔ سب سائل ہیں : تمام اہل ارض و سماء اسی کے محتاج ہیں۔ آسمان والے وہ چیزیں اس سے مانگتے ہیں جو ان کے دین سے متعلق ہیں۔ اور اہل ارض وہ چیزیں مانگتے ہیں جو دین و دنیا دونوں سے متعلق ہے۔ نحو : کُلَّ یَوْمٍ (ہر دن) یہ ظرف ہونے کی وجہ سے منصوب ہے اس پر ھو فی شان دلالت کرتا ہے۔ تقدیر کلام اس طرح ہے : کل وقت و حین یحدث امورًا و یجدد احوالا۔ ایک بلند ایک کو پست کرتا ہے : ھُوَ فِیْ شَاْنٍ (وہ ایک نئی شان میں ہے) یعنی ہر وقت و گھڑی وہ کچھ امور کو پیدا کرتا اور حالات کی تجدید کرتا ہے۔ جیسا کہ مروی ہے۔ کہ آپ ﷺ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی آپ سے عرض کیا گیا وہ شان کیا ہے ؟ تو ارشاد فرمایا اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ کسی کے گناہ کو معاف کرتا ہے تو کسی کے دکھ کا ازالہ اور ایک قوم کو بلند اور دوسروں کو پست کرتا ہے۔ ] رواہ ابن ماجہ : 202[ ابن حبان فی صحیحہٖ 689۔ قول ابن عیینہ (رح) : ہے کہ زمانہ اللہ تعالیٰ کے ہاں دو دن ہے۔ ان میں سے ایک وہ دن ہے جس کو مدت دنیا کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی شان اس دن میں امرو نہی ‘ احیاء اماتت، عطاء و منع، ہے اور دوسرا دن یوم آخرت ہے۔ اس دن میں اس کی شان جزاء و حساب ہے۔ ایک قول یہ ہے : کہ یہ یہود کے متعلق اتری جبکہ انہوں نے کہا کہ ہفتے کے دن کسی شان کا اظہار نہیں کرتے ( بلکہ آرام کرتے ہیں) نکتہ : کسی بادشاہ نے اپنے وزیر سے اس آیت کے متعلق سوال کیا تو وزیر نے اگلے روز تک مہلت طلب کی۔ اور پریشان ہو کر اس آیت کے متعلق سوچتا ہوا گیا وزیر کے ایک سیاہ غلام نے اسے کہا اے میرے آقا مجھے بتلائو آپ کو کیا پریشانی ہے۔ شاید میری وجہ سے اللہ تعالیٰ آسانی پیدا فرما دے۔ پس اس نے اطلاع دی۔ تو غلام کہنے لگا۔ میں بادشاہ کے سامنے اس کی تفسیر بیان کردونگا وزیر نے بادشاہ کو اس کی اطلاع دی۔ تو غلام نے حاضرہو کر کہا اے بادشاہ ! اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل فرماتا ہے اور زندہ کو مردہ اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے۔ بیمار کو تندرست اور تندرست کو بیمار کردیتا ہے۔ مبتلٰی کو معافی دیتا اور معافی والے کو ابتلاء میں ڈال دیتا ہے۔ ذلیل کو معزز اور معززکو ذلیل کردیتا ہے۔ مالدار کو فقیر و محتاج اور محتاج کو غنی و مالدار بنا دیتا ہے۔ اس پر بادشاہ کہنے لگا۔ تو نے بہت خوب بیان کیا۔ اور وزیر کو حکم دیا کہ وہ اس کو وزارت کا خلعت پہنائے اس پر غلام کہنے لگا۔ اے میرے آقا یہ بھی اللہ تعالیٰ کی شان ہے۔ ایک قول یہ ہے تقدیر کو ان کے اوقات تک چلا کرلے جاتا ہے۔ (اس کو شان سے تعبیر فرمایا) ایک نکتہ : عبد اللہ بن طاہر نے حسین بن الفضل کو بلا کر کہا کہ تین آیات کے سمجھنے میں مجھے مشکل پیش آئی ہے۔ میں نے تمہیں اس لئے بلایا ہے تاکہ تو ان کی وضاحت کرے۔ نمبر 1۔ فاصبح من النادمین ] المائدہ : 31[ اور یہ بات ثابت شدہ ہے کہ شرمندگی توبہ ہے (مگر وہ سزا کا شکار ہوا) نمبر 2۔ کل یوم ھو فی شان۔ (الرحمان۔ 39) اور یہ بات بالکل حقیقت ہے کہ قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے اس کے متعلق تقدیر کا قلم لکھ چکا اور خشک ہوگیا۔ نمبر 3۔ ان لیس للانسان الاماسعٰی ] النجم : 39[ تو پھر بڑھا کر کئی گنا کا کیا مطلب ہے۔ حسین نے جواب دیا ممکن ہے کہ اس امت میں ندامت محضہ توبہ کیلئے کافی نہ ہوتی ہو اور اس امت میں ندامت حقیقیہ کو توبہ شمار کیا گیا ہے۔ اور قول یہ ہے کہ قابیل کی شرمندگی قتل ہابیل نہ تھی۔ بلکہ اس کو اٹھائے اٹھائے پھرنے کی پریشانی پر تھی۔ نمبر 2۔ لیس والی آیت قوم ابراہیم و موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ خاص ہے۔ نمبر 3۔ کل یوم والی آیت تو یہ شانیں وہ ظاہر فرماتے ہیں۔ ان کو نئے سرے سے نہیں بناتے۔ اس پر عبد اللہ اٹھا اور حسین کا سر چوم لیا۔
Top