Madarik-ut-Tanzil - Al-Qalam : 17
اِنَّا بَلَوْنٰهُمْ كَمَا بَلَوْنَاۤ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ١ۚ اِذْ اَقْسَمُوْا لَیَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِیْنَۙ
اِنَّا : بیشک ہم نے بَلَوْنٰهُمْ : آزمائش میں ڈالا ہم نے ان کو كَمَا بَلَوْنَآ : جیسا کہ آزمایا ہم نے اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ : باغ والوں کو اِذْ اَقْسَمُوْا : جب انہوں نے قسم کھائی لَيَصْرِمُنَّهَا : البتہ ضرور کاٹ لیں گے اس کو مُصْبِحِيْنَ : صبح سویرے
ہم نے ان لوگوں کی اس طرح آزمائش کی ہم جس طرح باغ والوں کی آزمائش کی تھی جب انہوں نے قمسیں کھا کھا کر کہا کہ صبح ہوتے ہوتے ہم اس کا میوہ توڑ لیں گے
17 : اِنَّا بَلَوْنٰھُمْ (ہم نے ان کی آزمائش کر رکھی ہے) ہم نے اہل مکہ کا قحط و بھوک کے ساتھ امتحان لیا۔ یہاں تک کہ مردار اور بوسیدہ ہڈیاں کھانے تک مجبور ہوگئے۔ اور یہ نبی اکرم ﷺ کی اس بددعا کی وجہ سے ہوا۔ اللھم اشددوطأتک علی مضر و اجعلھا سنین کسنی یوسف ] بخاری : 804، مسلم 675[ اے اللہ مضر پر بندھن کو سخت فرما اور یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ جیسا قحط ان پر مسلط فرما۔ باغ والوں کی مثال : کَمَا بَلَوْنَآ اَصحٰبَ الْجَنَّۃِ (جیسا ہم نے باغ والوں کی آزمائش کی تھی) وہ نماز پڑھنے والے لوگ تھے۔ ان کے والد کا ایک باغ بستی میں تھا جس کو ذروان کہتے تھے۔ یہ صنعاء یمن سے دو فرسنگ پر واقع تھا۔ وہ اس باغ سے سال کا خرچہ حاصل کرتا۔ باقی فقراء و مساکین کو دے دیتا۔ جب وہ فوت ہوگیا تو اس کے بیٹے کہنے لگے اگر ہم بھی اسی طرح کریں گے جیسا ہمارا والد کرتا تھا تو ہم تنگدست ہوجائیں گے۔ ہم صاحب عیال ہیں۔ پس انہوں نے باہمی قسمیں اٹھائیں۔ کہ لیصرمنہا مصبحین منہ اندھیرے توڑ لیں گے تاکہ مساکین کو علم نہ ہو۔ انہوں نے قسم میں انشاء اللہ نہ کہا پس اللہ تعالیٰ نے ان کے باغ کو جلا دیا۔ قول حسن (رح) یہ کافر تھے۔ قول جمہور : یہ مسلمان تھے جیسا پہلا قول نقل کیا۔ اِذْاَقْسَمُوْا (انہوں نے قسمیں اٹھائیں) لَیَصْرِمُنَّھَا (وہ ضرور اس کا پھل توڑ لیں گے) مُصبِحِیْنَ (صبح سویرے) جونہی صبح داخل ہو اور فقراء ادھر ادھر منتشر ہوں۔ نحو : یہ یصرمنھا کی ضمیرفاعلی سے حال ہے۔
Top