Madarik-ut-Tanzil - Al-Haaqqa : 34
وَ لَا یَحُضُّ عَلٰى طَعَامِ الْمِسْكِیْنِؕ
وَلَا يَحُضُّ : اور نہیں ترغیب دیتا تھا عَلٰي طَعَامِ الْمِسْكِيْنِ : اوپر مسکین کے کھلانے کے
اور نہ فقیر کے کھانا کھلانے پر آمادہ کرتا تھا۔
34 : وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ (اور غریب آدمی کے کھلانے کی ترغیب نہ دیتا تھا) کہ مسکین کو کھانا دے۔ اس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ اس کا بعث بعدالموت پر ایمان نہ تھا۔ کیونکہ عام لوگ مساکین کو کھانا کھلانے پر ان سے جزاء طلب نہیں کرتے ان کو رضائے الٰہی کیلئے فقط کھلاتے ہیں۔ اور آخرت کے ثواب کی طلب میں ان کو کھانادیتے ہیں۔ پس جب اس کو قیامت پر یقین نہیں تو اس کے سامنے کوئی ایسی وجہ نہیں جس سے وہ مساکین کو کھانا دے۔ اب مطلب یہ ہوا کہ وہ کفر کے ساتھ ساتھ محتاجوں کو کھانا کھلانے کیلئے دوسروں کو بھی نہیں کہتا۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ مسکین کو محروم کرنا بڑا جرم ہے۔ کیونکہ اس کو اللہ تعالیٰ نے کفر پر معطوف کیا ہے۔ اور اس کے خلاف ایک دلیل کے طور پر ذکر کیا۔ اور اس کے کفر کا قرین قرار دیا اور یہاں آمادہ کرنے کا تذکرہ ہے فعل کا نہیں۔ تاکہ معلوم ہوجائے کہ جب آمادہ نہ کرنے والا اس قدر قابل مذمت ہے تو فعل کا چھوڑنے والا کیونکر قابل مذمت نہ ہوگا۔ قول ابودرداء ؓ : آپ اپنی بیوی کو فرماتے کہ شوربا زیادہ بنانا تاکہ مساکین کو بھی دیا جاسکے۔ نصف زنجیر تو ہم نے ایمان کے ذریعہ اتاری۔ اب بقیہ نصف اس صدقہ سے اتاریں گے۔ ۔ : یہ آیات اس بات پر شاہد عدل ہیں کہ مومن ایک دوسرے پر رحم کرنے والے ہوتے ہیں۔ اور کافر رحم نہیں کرتے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی دو قسمیں فرمائیں ایک قسم ان میں سے اہل الیمین بنائے اور ان کو ایمان سے نوازا پس ان کی اس طرح تعریف فرمائی۔ انی طننت انی ملاق حسابیہ۔ اور دوسری قسم کو اہل شمال بنایا اور ان کے حالات کفریہ اس طرح ذکر کئے انہ کان لا یؤمن باللہ العظیم۔ فائدہ : یہ درست ہے کہ ایمان والوں میں سے جن کو سزا دی جانی ہے۔ وہ نامہ عمل کے دائیں ہاتھ میں ملنے سے پہلے پہلے ہو۔
Top