Madarik-ut-Tanzil - Al-A'raaf : 55
اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةً١ؕ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَۚ
اُدْعُوْا : پکارو رَبَّكُمْ : اپنے رب کو تَضَرُّعًا : گر گڑا کر وَّخُفْيَةً : اور آہستہ اِنَّهٗ : بیشک وہ لَا يُحِبُّ : دوست نہیں رکھتا الْمُعْتَدِيْنَ : حد سے گزرنے والے
لوگو ! اپنے رب سے عاجزی اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو۔ وہ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں بناتا۔
پکارنے کا حکم ‘ مگر حد سے تجاوز کی ممانعت : آیت 55: اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّ عًا وَّ خُفْیَۃً (تم اپنے رب سے دعا کیا کرو گڑ گڑا کر اور چپکے چپکے بھی) یہ دونوں حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہیں یعنی عاجزی والا اور پوشیدگی والا۔ التضرع یہ تفعُّل کا وزن ہے الضرعہ سے بنا ہے اور وہ عجزو ذلت کو کہتے ہیں یعنی گڑگڑا کر اور مسکینی ظاہر کر کے حضور ( علیہ السلام) نے فرمایا تم کسی بہرے اور غائب کو نہیں پکار رہے ہو۔ بلکہ تم سمیع و قریب کو پکار رہے ہو۔ وہ تمہارے ساتھ ہے تم جہاں بھی ہو۔ ( بخاری 4384، مسلم 2704) حسن بصری (رح) سے روایت ہے کہ پوشیدہ اور علانیہ پکار نے میں ستر گنا کا فرق ہے۔ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ (بیشک وہ ان کو ناپسند کرتے ہیں جو حد سے نکل جائیں) ہر وہ چیز جس کا حکم دیا گیا دعا وغیرہ اس میں تجاوز کرنے والے۔ ابن جریج کا قول ہے کہ دعا کے لئے آواز بلند کرنے والے اور ابن جریج کا قول ہے دعا میں چیخنا مکروہ اور بدعت ہے اور یہ بھی قول ہے اعتداء فی الدعا سے مراد دعا کو لمبا کرنا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ عنقریب کچھ لوگ ہونگے جو دعا میں حد سے تجاوز کریں گے حالانکہ آدمی کو اس طرح کہنا کافی ہے۔ اللّٰھم انی اسئلک الجنۃ و ما قرّب الیھا من قول و عمل۔ واعوذ بک من النار و ما قرب الیھا من قول و عملٍ پھر آپ نے یہ آیت۔ انہٗ لایحب المعتدینتک تلاوت فرمائی۔ ( ابو دائود۔ 1480)
Top