Madarik-ut-Tanzil - Al-A'raaf : 72
فَاَنْجَیْنٰهُ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَ قَطَعْنَا دَابِرَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ مَا كَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ۠   ۧ
فَاَنْجَيْنٰهُ : تو ہم نے اسے نجات دی (بچا لیا) وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو مَعَهٗ : اس کے ساتھ بِرَحْمَةٍ : رحمت سے مِّنَّا : اپنی وَقَطَعْنَا : اور ہم نے کاٹ دی دَابِرَ : جڑ الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیات وَمَا : اور نہ كَانُوْا : تھے مُؤْمِنِيْنَ : ایمان لانے والے
پھر ہم نے ہود کو اور جو لوگ ان کے ساتھ تھے انکو نجات دی اور جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا تھا ان کی جڑ کاٹ دی۔ اور وہ ایمان لانے والے تھے ہی نہیں۔
نتیجتاً کفار کی جڑ کاٹ دی : آیت 72: فَاَنْجَیْنٰہُ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ (غرض ہم نے ان کو اور ان کے ساتھیوں کو بچالیا) یعنی جو ان پر ایمان لائے بِرَحْمَۃٍ مِّنَّا وَقَطَعْنَا دَ ابِرَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰ یٰتِنَا (اپنی رحمت سے۔ اور ان لوگوں کی جڑکاٹ دی جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا تھا) ۔ الدابرجڑ یا جو کسی چیز کے بعد ہو۔ اور قطع دا بر سے مراد مکمل استیصال اور ملیامیٹ ہونا ہے۔ وَ مَا کَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ (اور وہ ایمان لانے والے نہ تھے) : ان سے ایمان کی نفی کی اس کے باوجود کہ تکذیب آیات کا ان کے لئے اثبات کیا۔ تو اس سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ ہلاکت مکذبین کے ساتھ خاص ہے۔ علاقہ قوم عاد اور مختصر حالات : قوم عاد، عمان اور حضرموت کے درمیان تمام علاقے میں پھیلے ہوئے تھے۔ ان کے ہاں بت تھے جن کی وہ پرستش کرتے تھے۔ بتوں کے معروف نام یہ تھے۔ نمبر 1۔ صداء۔ نمبر 2۔ صمود۔ نمبر 3۔ ھباء۔ ان کی طرف اللہ تعالیٰ نے ھود ( علیہ السلام) کو بھیجا مگر انہوں نے جھٹلا دیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے تین سال کے لئے ان سے بارش کو روک دیا۔ جب ان پر کوئی مصیبت آتی تو اللہ تعالیٰ سے کشادگی طلب کرتے اور دعا کے لئے بیت الحرام مکہ مکرمہ جاتے چناچہ اس قحط کے لئے قیل بن عنز اور لقیم بن ہزال اور مرثد بن سعد، یہ ھود ( علیہ السلام) پر خفیہ ایمان رکھتا تھا۔ اس وقت ان پر عمالقہ کی حکومت تھی۔ جو کہ عملیق بن لاوذبن سام بن نوح کی اولاد تھے۔ اور ان کا سردار معاویہ بن بکر تھا۔ یہ وفد اس کے ہاں مکہ کے بالائی علاقے پر اترے۔ ان کو مرثد نے کہا جب تک تم ھود ( علیہ السلام) پر ایمان نہ لائو گے بارش نہ ہوگی۔ انہوں نے مرثد کو پیچھے چھوڑا اور خود نکل کر بیت اللہ کے پاس گئے اور یہ دعا کی۔ اللّٰھم اسق عادًا ماکنت تسقیھمٗ اللہ تعالیٰ نے تین بادل سامنے کر دئے۔ سفید، سرخ، سیاہ پھر آسمان کے ایک منادی نے کہا یاقیل اختر لنفسک ولقومک اے قیل ان میں سے اپنی قوم اور اپنے لئے ایک بادل چن لو اس نے سیاہ بادل کا چنائو کیا کیونکہ اس میں پانی زیادہ ہوتا ہے۔ پھر قوم کی طرف وادی کے قریبی راستہ سے لوٹ گئے اور ان کو خوشخبری سنائی وہ خوش ہوئے اور کہنے لگے ھذا عارض ممطرنا۔ مگر اس سے سخت ہوا نکلی جس نے ان کو ہلاک کردیا۔ ھود ( علیہ السلام) اور ایمان والوں نے نجات پائی وہ مکہ مکرمہ میں آب سے اور مدت تک وہیں رہے۔
Top