Madarik-ut-Tanzil - Al-Anfaal : 33
وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْ١ؕ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ
وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے اللّٰهُ : اللہ لِيُعَذِّبَهُمْ : کہ انہیں عذاب دے وَاَنْتَ : جبکہ آپ فِيْهِمْ : ان میں وَمَا : اور نہیں كَانَ : ہے اللّٰهُ : اللہ مُعَذِّبَهُمْ : انہیں عذاب دینے والا وَهُمْ : جبکہ وہ يَسْتَغْفِرُوْنَ : بخشش مانگتے ہوں
اور خدا ایسا نہ تھا کہ جن تک تم ان میں تھے انہیں عذاب دیتا۔ اور نہ ایسا تھا کہ وہ بخش مانگیں اور انہیں عذاب دے۔
ہجرت تک عذاب رکا رہا : آیت 33: وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّ بَھُمْ وَاَنْتَ فِیْھِمْ (اور اللہ ایسا نہیں کریگا کہ ان کے اندر آپ کے موجود ہوتے ہوئے ان کو عذاب دے) اس میں لام نفی تاکید کیلئے ہے۔ اس میں یہ دلالت ہے کہ جب تک آپ ان میں اقامت پذیر ہیں ان کو عذاب نہ دیا جائے گا کیونکہ آپ کو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا گیا اور اللہ تعالیٰ کا طریقہ سابقہ امم میں یہ چلا آرہا ہے کہ کسی قوم کو استیصال کا عذاب اس وقت نہیں دیا جاتا جب تک انکا پیغمبران میں موجود ہو۔ اس سے یہ اشارہ مل رہا ہے کہ پیغمبر ﷺ کے ہجرت کرنے تک عذاب ان سے رکا ہوا ہے۔ وَمَاکَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَھُمْ وَھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ (اور اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے والا نہیں ایسی حالت میں کہ وہ استغفار بھی کرتے رہتے ہیں) یہ موضع حال میں ہے اس کا معنی ان سے استغفار کی نفی ہے۔ یعنی نمبر 1: کہ اگر یہ ان لوگوں میں سے ہوتے جو ایمان لاتے اور کفر سے استغفار کرتے تو ان کو اللہ تعالیٰ عذاب نہ دیتے۔ نمبر 2۔ اللہ تعالیٰ ان کو اس وقت تک عذاب دینے والے نہیں جب تک ان میں استغفار کرنے والے موجود ہیں۔ اور وہ مسلمان ہیں جو مکہ میں موجود تھے اور کمزوری کی وجہ سے ہجرت نہ کرسکے۔
Top