Madarik-ut-Tanzil - Al-Anfaal : 59
وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَبَقُوْا١ؕ اِنَّهُمْ لَا یُعْجِزُوْنَ
وَلَا يَحْسَبَنَّ : اور ہرگز خیال نہ کریں الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) سَبَقُوْا : وہ بھاگ نکلے اِنَّهُمْ : بیشک وہ لَا يُعْجِزُوْنَ : وہ عاجز نہ کرسکیں گے
اور کافر یہ نہ خیال کریں کہ وہ بھاگ نکلے ہیں۔ وہ (اپنی چالوں سے ہم کو) ہرگز عاجز نہیں کرسکتے۔
کافر ہم سے بھاگ نہیں سکتے : آیت 59: وَلَایَحْسَبَنَّ (اور اپنے متعلق یہ خیال نہ کریں) قراءت : شامی، حمزہ، یزید، حفص نے یَحْسَبَنَّ پڑھا ہے۔ ابوبکر نے تَحْسَبَنَّ پڑھا ہے۔ جبکہ دیگر قراء نے تَحْسِبَنَّ سین کے کسرہ سے پڑھا ہے۔ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَبَقُوْا (کافر کہ وہ بچ گئے) نکل گئے اور قابو میں نہیں آئے۔ اِنَّھُمْ لَایُعْجِزُوْنَ (یقینا وہ لوگ عاجز نہیں کرسکتے) وہ بچ کر نہیں نکل سکتے اور ڈھونڈنے والے کو عاجز بھی نہیں کرسکتے۔ قراءت : شامی نے اَنَّھُمْ پڑھا ہے۔ ای لانہم ہمزہ مک سورة ہو یا مفتوحہ دونوں ہی تعلیل کیلئے ہیں فرق صرف یہ ہے کہ مک سورة مستانفہ ہو کر تعلیلیہ ہے اور مفتوحہ صراحۃً تعلیلیہ ہے۔ اور جنہوں نے تا سے پڑھا تو انہوں نے الذین کفروا کو مفعول اول اور سبقواؔ کو مفعول ثانی بنایا ہے اور جنہوں نے یا سے پڑھا انہوں نے الذین کفروا کو فاعل قرار دیا اور سبقوا کو مفعول۔ تقدیر عبارت یہ ہے اَنْ سَبَقُوْا۔ اَنْ کو حذف کردیا اور یہ ان مخففہ من المثقلہ ہے ای انہم سبقوا تو یہ دو مفعولوں کے قائم مقام ہے۔ نمبر 3۔ فاعل مضمر ہے ای ولا یحسبن محمد الکافرین سابقین ہرگز محمد ﷺ کافروں کو ہم سے سبقت کرنے والے گمان نہ کریں۔ بعض لوگوں نے حمزہ کو اس قراءت میں متفرد قرار دیا مگر انکا قول محل نظر ہے۔ جیسا کہ ہم واضح کرچکے۔ زہری سے روایت ہے یہ ان لوگوں کے بارے میں اتری جو شکست کھانے کے بعد بچ گئے۔
Top