Madarik-ut-Tanzil - At-Tawba : 75
وَ مِنْهُمْ مَّنْ عٰهَدَ اللّٰهَ لَئِنْ اٰتٰىنَا مِنْ فَضْلِهٖ لَنَصَّدَّقَنَّ وَ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ
وَمِنْهُمْ : اور ان سے مَّنْ : جو عٰهَدَ اللّٰهَ : عہد کیا اللہ سے لَئِنْ : البتہ۔ اگر اٰتٰىنَا : ہمیں دے وہ مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اپنا فضل لَنَصَّدَّقَنَّ : ضرور صدقہ دیں ہم وَلَنَكُوْنَنَّ : اور ہم ضرور ہوجائیں گے مِنَ : سے الصّٰلِحِيْنَ : صالح (جمع)
اور ان میں بعض ایسے ہیں جنہوں نے خدا سے عہد کیا تھا کہ اگر وہ ہم کو اپنی مہربانی سے (مال) عطا فرمائے گا تو ہم ضرور خیرات کیا کریں گے اور نیکو کاروں میں ہوجائیں گے۔
آیت 75: وَمِنْھُمْ مَّنْ عٰھَدَ اللّٰہُ (اور ان میں بعض آدمی ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے عہد کرتے ہیں) روایت میں ہے کہ ثعلبہ بن حاطب نے کہا یارسول اللہ ! میرے لئے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے مال عنایت فرما دے۔ آپ ( علیہ السلام) نے فرمایا۔ اے ثعلبہ ! قلیل مال جس کا شکریہ ادا کیا جائے وہ اس کثیر سے بہت بہتر ہے جس کے شکریہ کی طاقت نہ ہو۔ اس نے درخواست کا اعادہ کیا اور کہا جس ذات نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے اگر اللہ تعالیٰ نے مجھ مال دے دیا تو میں ہر حق والے کو اس کا حق دونگا۔ آپ نے دعا فرما دی۔ اس نے بکریاں خریدیں وہ اس طرح بڑھیں جیسے کیڑے بڑھتے ہیں یہاں تک کہ مدینہ میں اس کی اپنی جگہ تنگ ہوگئی۔ پس اس نے وادی میں جاکر ڈیرہ لگا دیا اور جمعہ و جماعت سے منقطع ہوگیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے متعلق پوچھا تو بتلایا گیا کہ اس کا مال اسقدر بڑھ گیا ہے کہ وادی میں وہ سما نہیں سکتا۔ تو آپ نے فرمایا یا ویح ثعلبۃ۔ رسول اللہ ﷺ نے صدقہ وصول کرنے والوں کو بھیجا۔ لوگوں نے اپنے صدقات ان کو دیے۔ ثعلبہ کو بھی انہوں نے صدقہ کیلئے کہا تو کہنے لگا یہ جزیہ ہے پھر ان کو کہا واپس جائو تاکہ میں اپنی رائے قائم کرلوں۔ جب وہ واپس لوٹے تو انہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ اس سے پہلے کہ وہ دونوں قاصد کوئی بات کرتے۔ یا ویح ثعلبۃ ! یا ویح ثعلبۃ پس یہ آیت اتری۔ پھر ثعلبہ صدقہ لے کر آیا۔ تو آپ نے فرمایا مجھے اللہ تعالیٰ نے تیرا صدقہ قبول کرنے سے منع کردیا ہے وہ اپنے سر پر مٹی ڈالنے لگا۔ آنحضرت ﷺ کی وفات ہوگئی۔ ابوبکر صدیق ؓ کے پاس صدقہ لے کر آیا۔ آپ نے قبول نہ کیا۔ پھر عمر ؓ کے پاس ان کے زمانہ خلافت میں صدقہ لا یا انہوں نے منظور نہ کیا۔ خلافت عثمانی میں وہ مرگیا۔ ( رواہ البیہقی فی دلائل النبوۃ۔ مگر اس کی اسناد میں اسقدر ضعف ہے کہ قابل حجت نہیں۔ ایسا واقعہ تو کثرت سے نقل ہونا چاہیئے تھا جبکہ احادیث کی کتابوں میں دور تک انکا نشان بھی نہیں ملتا۔ فافہم و تدبر) لَپنْ ٰاتٰنَا مِنْ فَضْلِہٖ (کہ اگر اللہ تعالیٰ ہم کو اپنے فضل سے عطا فرما دے) یعنی مال لَنَصَّدَّقَنَّ (تو ہم خوب خیرات کریں) ہم صدقہ ضرور نکالیں گے۔ نصدّ قن اصل میں نتصد قن ہے تاکو صاد میں ادغام کردیا کیونکہ دونوں میں قرب مخرج پایا جاتا ہے۔ وَلَنَکُوْنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ (اور ہم خوب نیک کام کیا کریں) صدقہ نکال کر۔
Top