Madarik-ut-Tanzil - At-Tawba : 92
وَّ لَا عَلَى الَّذِیْنَ اِذَا مَاۤ اَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَاۤ اَجِدُ مَاۤ اَحْمِلُكُمْ عَلَیْهِ١۪ تَوَلَّوْا وَّ اَعْیُنُهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا اَلَّا یَجِدُوْا مَا یُنْفِقُوْنَؕ
وَّلَا : اور نہ عَلَي : پر الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اِذَا : جب مَآ اَتَوْكَ : جب آپکے پاس آئے لِتَحْمِلَهُمْ : تاکہ آپ انہیں سواری دیں قُلْتَ : آپ نے کہا لَآ اَجِدُ : میں نہیں پاتا مَآ اَحْمِلُكُمْ : تمہیں سوار کروں میں عَلَيْهِ : اس پر تَوَلَّوْا : وہ لوٹے وَّاَعْيُنُهُمْ : اور ان کی آنکھیں تَفِيْضُ : بہہ رہی ہیں مِنَ : سے الدَّمْعِ : آنسو (جمع) حَزَنًا : غم سے اَلَّا يَجِدُوْا : کہ وہ نہیں پاتے مَا : جو يُنْفِقُوْنَ : وہ خرچ کریں
اور نہ ان (بےسروسامان) لوگوں پر (الزام) ہے کہ تمہارے پاس آئے کہ ان کو سواری دو اور تم نے کہا کہ میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جس پر تم کو سوار کروں تو وہ لوٹ گئے اور اس غم سے کہ انکے پاس خرچ موجود نہ تھا۔ انکی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے۔
زادِ سفر سے معذور لوگ : آیت 92: وَّلَا عَلَی الَّذِیْنَ اِذَا مَآ اَتَوْکَ لِتَحْمِلَھُمْ (اور نہ ان لوگوں پر کہ جس وقت وہ آپ کے پاس آئے اسلئے تاکہ آپ ان کو سواری دیں) سواری عنایت کریں قُلْتَ (آپ نے کہہ دیا) یہ اَتَوْکَ کی کا فؔ سے حال ہے اور اس سے پہلے قد مضمر ہے ای اذا اتوک قائلاً ۔ جب وہ یہ کہتے ہوئے آئے کہ ہمیں سواری دیں تو آپ نے انہیں جواب دیا۔ لَآ اَجِدُ مَآ اَحْمِلُکُمْ عَلَیْہِ تَوَلَّوْا (میرے پاس تو کوئی چیز نہیں جس پر میں آپ کو سوار کر دوں تو وہ واپس چلے جاتے ہیں) یہ اذا کا جواب ہے وَّ اَعْیُنُہُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ (اس حالت میں کہ ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوتے ہیں) بہتے ہیں تفیض دمعًا بنسبت یفیض دمعھا سے زیادہ بلیغ ہے کیونکہ اسمیں آنکھ کو اس طرح قرار دیا گویا وہ چھلکتے آنسو ہیں۔ من ؔ بیانیہ ہے جب کہتے ہیں افدیک من رجل جار و مجرور ملکر تمیز کی وجہ سے محل نصب میں واقع ہیں اور یہ بھی درست ہے کہ قلت لا اجد جملہ مستانفہ ہو۔ گویا اس طرح کہا گیا اذا ما اتوک لتحملھم تولّوا۔ جب وہ آپ کے پاس آتے ہیں تاکہ تم ان کو سواری دو وہ واپس لوٹتے ہیں۔ تو سوال پیدا ہوا وہ روتے ہوئے کیوں واپس لوٹ رہے ہیں ؟ تو جواب دیا۔ قلت لا اجدما احملکم علیہ۔ تم نے کہا میرے پاس تمہیں دینے کیلئے سواری نہیں۔ البتہ اس جملے کو شرط و جزاء کے درمیان معترضہ جملہ کی طرح لایا گیا ہے۔ حَزَنًا (اس غم میں) یہ مفعول لہٗ ہے اَلَّا یَجِدُوْا مَا یُنْفِقُوْنَ (کہ ان کو خرچ کرنے کو کچھ میسر نہیں) اسلئے کہ وہ خرچہ کیلئے کچھ نہیں پا تے۔ یہ مفعول لہٗ ہونے کی وجہ سے منصوب ہے اور اس کا ناصب حَزَنًا ؔ ہے نمبر 1 سواری طلب کرنے والے ابو موسیٰ اشعری ؓ اور ان کے ساتھی ہیں۔ نمبر 2۔ رونے والے چھ انصاریٰ ہیں۔
Top