Mafhoom-ul-Quran - Yunus : 75
ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ مُّوْسٰى وَ هٰرُوْنَ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡئِهٖ بِاٰیٰتِنَا فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ
ثُمَّ : پھر بَعَثْنَا : ہم نے بھیجا مِنْۢ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد مُّوْسٰى : موسیٰ وَھٰرُوْنَ : اور ہارون اِلٰى : طرف فِرْعَوْنَ : فرعون وَمَلَا۟ئِهٖ : اس کے سردار بِاٰيٰتِنَا : اپنی نشانیوں کے ساتھ فَاسْتَكْبَرُوْا : تو انہوں نے تکبر کیا وَكَانُوْا : اور وہ تھے قَوْمًا : لوگ مُّجْرِمِيْنَ : گنہگار (جمع)
پھر ان کے بعد ہم نے موسیٰ اور ہارون کو اپنی نشانیاں دے کر فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس بھیجا تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ گنہگار لوگ تھے۔
سیدنا موسیٰ کی تعلیم، قوم کی گمراہی، تباہی اور عبرت کا سامان تشریح : ان آیات میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور قوم فرعون کا ذکر اس لحاظ سے کیا گیا ہے کہ کفار کو عبرت دلائی جائے۔ اس سے پہلے قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود بھی نافرمانی کی وجہ سے مختلف عذابوں کا نشانہ بن چکی ہیں۔ ان آیات میں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہما السلام) ان کی قوم اور فرعون کا ذکر بڑی تفصیل سے کیا گیا ہے۔ مختصراً یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی توحید کا سبق دینے پر مامور کیا گیا تھا۔ آپ کی امت زیادہ تھی۔ آپ جہاد پر مامور ہوئے آپ کو حسن تدبر میں کمال حاصل تھا حضرت ہارون (علیہ السلام) آپ کے مددگار بنائے گئے۔ آپ نے فرعون کے محل میں ہی پرورش پائی کیونکہ آپ کی والدہ نے آپ کو صندوق میں بند کر کے دریا میں ڈال دیا تھا اور وہ صندوق فرعون کی بیوی کے ہاتھ لگ گیا اس نے آپ کو بیٹے کی طرح پرورش کیا۔ آپ کو کلیم اللہ کا لقب ملا کیونکہ اللہ نے آپ سے کلام بھی کیا۔ بنی اسرائیل کے پیغمبر تھے۔ فرعون ان پر بہت ظلم کرتا تھا تو اس سے قوم کو انہوں نے نجات دلائی اور فرعون ایمان نہ لانے اور تکبر و غرور کی وجہ سے دریا میں غرق کردیا گیا۔ مرتے وقت اس نے توبہ کی اور ایمان لے آیا مگر اس وقت کی توبہ قبول نہیں ہوئی۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آج ہم تیرے بدن کو نکال لیں گے تاکہ پچھلوں کے لیے عبرت ہو۔ تو اللہ کی شان دیکھئے کہ فرعون کی لاش تین ہزار پانچ سو سال گزر جانے کے بعد بھی برٹش میوزیم میں محفوظ پڑی ہے اور دنیا کے لیے عبرت کی کہانی پیش کر رہی ہے۔ ایک ایسے انسان کی لاش جو اپنی زندگی میں فخرو غرور، ظلم وستم کا بادشاہ اپنے آپ کو رب کہلواتا اور سجدہ کرواتا تھا۔ یہ کفر و شرک کا مجسمہ کس بےبسی اور اذیت کے مراحل طے کر رہا ہے۔ یہ بہت بڑی نشانی ہے اللہ کے وجود اور اس کی کبریائی وقدرت کی۔ اس کی پکڑ میں کوئی آتا ہے تو کس طرح آتا ہے کیا وہ مردوں کو زندہ نہ کرسکے گا ؟ کیا وہ حساب کتاب کر کے عذاب اور جزا نہ دے سکے گا ؟ ضرور، یہ سب کچھ ہو کر رہے گا۔ اسکی قدرت کا اندازہ تھوڑا سا فرعون کی اس محفوظ پڑی ہوئی لاش سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ ان آیات میں بڑی نصیحت آموز باتیں ملتی ہیں۔ معجزے اور جادو کا فرق یہ سورة الاعراف میں بیان ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ہجرت کرنا، ایمان پر قائم ہونا، نماز قائم کرنا یہ سب عمل ایک قوم میں اتحاد، یقین اور ثابت قدمی پیدا کرتے ہیں۔ پھر اپنی مشکلات کے لیے اللہ سے دعا، مدد مانگنے اور استغفار کا موقع مل جاتا ہے۔ غرض ان آیات میں حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام، فرعون اور اس کی ذہنیت، معجزے، جادو، بددعا، فرعون کی تباہی اور اس کا باعث عبرت بننا، بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور یہ بات بھی ثابت ہوئی ہے کہ عین موت کے وقت یا موت کے آثار دیکھ کر توبہ کرنا قابل قبول نہیں۔ فرعون کی لاش کا دنیا میں یوں موجود ہونا اللہ کی قدرت کی ایک بہت بڑی نشانی ہے۔ 1907 ء میں یہ لاش مل گئی کچھ عرصہ مصر میں رہی پھر برٹش میوزیم میں بھجوا دی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ انسان بندہ ہے اللہ الہ العلمین رب ہے۔ اسی کے سامنے جھکنے میں عظمت ہے اور نجات بھی۔ ہر وقت اس کے بتائے ہوئے احکامات کی پابندی اور استغفار کرتے رہنا چاہیے۔ اگلی آیات میں بنی اسرائیل کا ذکر کیا گیا ہے۔
Top