بد کردار انسان اور دوزخ
تشریح : اس سورت میں دوزخ کے ایک خاص درجے کا ذکر کیا گیا ہے جو خاص برائیاں کرنے والوں کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ جس طرح جنت میں درجات مقرر ہیں اسی طرح دوزخ میں بھی درجات بنائے گئے ہیں۔ یعنی اعمال کے مطابق سزا جزا دی جائے گی۔ یہاں ان لوگوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جو دنیا میں دوسروں کو طعنہ زنی ' عیب جوئی سے تنگ کرتے ہیں۔ یعنی دوسروں کی عزت خراب کرتے ہیں اور مال سے محبت اس قدر رکھتے ہیں کہ جہاں ضرورت ہو وہاں بھی خرچ نہیں کرتے انتہائی بخیل اور تنـگ نظر لوگ ہوتے ہیں۔ یعنی ہر وقت اسی چکر میں رہتے ہیں کہ کیسے مال بڑھتا رہے کم نہ ہو۔ مثل مشہور ہے کہ 99 کے چکر میں ہی رہتے ہیں کہ بس 100 بن جائے کسی طرح۔ انتہائی مال پرستی اور حرص و ہوس کا ثبوت دیتے ہیں۔ ان کو اس بات کا بھی خیال نہیں آتا کہ مال کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے بہت احکامات دے رکھے ہیں مثلاً یہ کہ مال جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے عزیز رشتہ دار ' دوست احباب ' مسافر ' غریب ' مسکین اور فقیر سب کو دو اور کوئی بھوکا ہو تو اسے کھانا کھلاؤ۔ صدقہ خیرات کرو زکوۃٰ دو ۔ یہ تمام احکامات اللہ کی طرف سے بندوں کو ان کی بہتری کے لیے دئیے گئے ہیں تو جو لوگ ان احکامات پر عمل کرتے ہوئے اپنے مال کو مل بانٹ کر خرچ کرتے ہیں وہ تو آخرت میں اجر ضرور پائیں گے لیکن جو مال کی محبت میں ان تمام فرائض کو بھول کر صرف مال ہی جمع کرتے رہتے ہیں تو ایسے لوگوں کو خبر دار کیا گیا ہے کہ اس نافرمانی اور مال کی انتہائی محبت میں گم ہو کر زندگی گزارنے کی سزا ان کو جہنم کے اس درجہ کی دی جائے گی کہ جو '' دلوں پر جا لپٹے گی ''۔ اس کی تشریح ہم اس حدیث سے کرسکتے ہیں حضور ﷺ نے فرمایا۔ بعض دوزخیوں کو آگ ٹخنوں تک پکڑلے گی ' بعض کو گھٹنوں تک ' بعض کو کمر تک ' بعض کو گردن تک اور بعض کو ہنسلی تک۔ (مسلم)
تو ثابت یہ ہوا کہ دوسروں کو طعنہ زنی کرنے والے اور بخیل لوگوں کو ایسی سزا دی جائے گی کہ جہنم کے اس درجہ کی آگ میں ان کو ضرور ڈالا جائے گا جو فوراً '' دلوں پر لپٹ جائے گی۔
یہ دونوں اخلاقی برائیاں کوئی معمولی برائیاں نہیں ان کی سزا بھی بڑی سخت ملے گی۔ لوگ مذاق مذاق میں دوسروں سے طعنہ زنی کرتے رہتے ہیں۔ تو ان کو خبردار کیا گیا ہے کہ اس طرح دوسروں کی عزت خراب کرنا اور دل دکھانا اللہ کو بہت زیادہ ناپسند ہے اور اسی طرح اس مال سے محبت کر کے نافرمانی کرنا کہ جو مرنے کے بعد ہرگز کچھ بھی کام نہ آئے گا۔ یہاں سے تو خالی ہاتھ ہی جانا ہوگا۔ سب جمع پونجی۔ مال دولت جائیداد اس دنیا میں ہی پڑی رہ جائے گی یہ بھی بڑا سخت گناہ ہے۔ ہمارے سامنے ہر وقت یہ واقعہ دیکھنے میں آتا رہتا ہے کہ بڑے سے بڑا کنجوس ' مالدار ' امیر کبیر جب یہاں سے رخصت ہوا تو خالی ہاتھ رخصت ہوا۔ سکندر اعظم فاتح اعظم نے اس بات کو لوگوں کے لیے عبرت اور نصیحت کا مقام بنانے کے لیے اپنی زندگی میں یہ وصیت کی تھی کہ جب میں مرجاؤں تو میرا ہاتھ کفن سے باہر چھوڑ دینا کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ ایک فاتح اعظم جب دنیا سے رخصت ہوا تو بالکل خالی ہاتھ رخصت ہوا۔ یہ حقیقت تو دن رات ہمارے سامنے عیاں ہوتی رہتی ہے۔ تو کیا اس حقیقت کو اور اس سورت میں بیان کی گئی حقیقت کو اپنی عملی زندگی میں نشان منزل بنا لینا اچھا ہے یا اس سے آنکھیں بند کر کے لاپرواہی اور نافرمانی کی زندگی گزاری جائے اور آخرت میں اذیت ناک زندگی گذاری جائے گی جس کی خبر اللہ نے ہمیں وقت پردے دی ہے یعنی '' اللہ کی سلگائی ہوئی آگ ' جو دل تک پہنچ جاتی ہے۔ (7-6)
محبت بڑا ہی مقدس جذبہ ہے لیکن جب یہ محبت دولت سے ہوجائے تو ہوس بن جاتی ہے۔ اسی بات کو حضرت شیخ سعدی نے یوں کہا ' '' جو زیادہ پیسے والا ہے وہی محتاج ہے ''۔ کیونکہ ایسے شخص میں حرص ' طمع ' لالچ ' خودغرضی اور اللہ کی نافرمانی اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ وہ خود کو کبھی آسودہ حال سمجھ ہی نہیں سکتا۔ لہٰذا اپنی اس ہوس مال کی عادت کو پوری طرح اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہیے تاکہ دنیا و آخرت سنور سکے۔
تاریخ کے جھروکے سے ہمیں بیشمار بادشاہ ' علماء فلاسفر اور فاتحین و ادباء و شعراء دکھائی دیتے ہیں۔ کتنے ہیں ان میں سے جو مقبولِ الٰہی ہوئے اور کتنے ہیں جو مغضوبِ الٰہی ہوئے۔ اللہ ہی جانتا ہے ان کی ظاہری زندگی کو دیکھ کر علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے۔
دوزخ کی کسی طاق میں افسردہ پڑی ہے
خاکستر اسکندر و دارا و ہلاکو
اس دنیا کی حقیقت اور جزا و سزا کا کیا خوب نقشہ کھینچا ہے شاعر مشرق علامہ اقبال نے پھر فرماتے ہیں
یہ مال و دولت دنیا یہ رشتہ و پیوند
بتان وہم و گماں لا الہ الا اللہ
اللہ ہمیں اپنے مقبول ترین بندوں میں شامل کرے اور اس حطمہ سے محفوظ رکھے جس کا ذکر اس سورة مبارکہ میں کیا گیا ہے۔ آمین ثم آمین۔ الحمد للہ کہ سورة الھمزہ مکمل ہوئی۔