Mafhoom-ul-Quran - Hud : 105
یَوْمَ یَاْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ اِلَّا بِاِذْنِهٖ١ۚ فَمِنْهُمْ شَقِیٌّ وَّ سَعِیْدٌ
يَوْمَ : جس دن يَاْتِ : وہ آئے گا لَا تَكَلَّمُ : نہ بات کرے گا نَفْسٌ : کوئی شخص اِلَّا : مگر بِاِذْنِهٖ : اس کی اجازت سے فَمِنْهُمْ : سو ان میں سے شَقِيٌّ : کوئی بدبخت وَّسَعِيْدٌ : اور کوئی خوش بخت
جس دن وہ آجائے گا تو کوئی جاندار اللہ کے حکم کے بغیر بول بھی نہ سکے گا۔ پھر ان میں سے کچھ بدبخت ہوں گے اور کچھ نیک بخت۔
قیامت، نیک و بد اور جزا و سزا تشریح : قیامت کے دن اللہ کا رعب دبدبہ اور جلال اس قدر زبردست ہوگا کہ کوئی شخض بات کرنے کی جرأت بھی نہ کرسکے گا سب لوگ مبہوت و پریشان دم بخود کھڑے ہوں گے صرف وہ شخص ہی بولنے کی جرأت کرے گا جس کو رب اعلیٰ بولنے کی اجازت دے گا یا حکم دے گا۔ اور اس میدان حشر میں بندوں کے صرف دو گروہ ہوں گے ایک نیک بخت اور دوسرا بدبخت اور پھر ان کو اپنے مقام پر پہنچا دیا جائے گا۔ جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رکھے جائیں گے اور یہاں آیت میں جو ہمیشہ کے لیے یہ کہا گیا ہے کہ جب تک زمین و آسمان رہیں گے تو اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک تو یہ کہ عربی زبان میں محاورتاً بولا جاتا ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ اس دنیا کے بعد دوسری دنیا کے بھی زمین و آسمان ہوں گے مگر وہ دائمی (ہمیشہ) رہنے والے ہوں گے۔ جیسا کہ اللہ فرماتا ہے : ” اس دن یہ زمین دوسری زمین سے بدل جائے گی اور آسمان بھی۔ “ ( سورة ابراہیم آیت : 48) یہ سمجھ میں آتا ہے کہ جنتی تو جنت میں ہمیشہ رہیں گے مگر دوزخیوں کے لیے ہوسکتا ہے اگر اللہ چاہے تو ان کو ان کے گناہوں کے مطابق کچھ عرصہ دوزخ میں رکھنے کے بعد جنت میں داخل کردیا جائے۔ یہ سب تو اس مالک و مختار کے ہاتھ میں ہے۔ جس کو جتنی سزا دے اور جس کو جتنے انعام دے۔ پھر کفار و مشرکین کے بارے میں وضاحت کردی گئی ہے کہ یہ لوگ اپنے آباؤ اجداد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بت پرستی اور شرک کی راہ اپنائے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ عقل سے کام لے کر کچھ نہیں کر رہے بس لکیر کے فقیر بنے ہوئے ہیں۔ ان کو ان کی نیتوں اور اعمال کا پورا پورا بدلہ ضرور دیا جائے گا نہ زیادتی کی جائے گی اور نہ ظلم بلکہ پورے انصاف کے ساتھ ان کا حساب کتاب کردیا جائے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ” وہ کسی حساب کی توقع نہ رکھتے تھے۔ “ (النباء آیت : 27 )
Top