Mafhoom-ul-Quran - Hud : 25
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ١٘ اِنِّیْ لَكُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌۙ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجا نُوْحًا : نوح اِلٰي : طرف قَوْمِهٖٓ : اس کی قوم اِنِّىْ : بیشک میں لَكُمْ : تمہارے لیے نَذِيْرٌ : ڈرانے والا مُّبِيْنٌ : کھلا
اور ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا (تو) انہوں نے (ان سے) کہا کہ میں تم کو کھول کھول کر ڈر سنانے ( اور یہ پیغام پہنچانے) آیا ہوں۔
نوح (علیہ السلام) کی قوم پر طوفان آنے کا واقعہ تشریح : کفار و مشرکین ہمیشہ ایک ہی طرح کی باتیں کرتے تھے مثلاً یہ کہ پیغمبر کو کہنا کہ تم ایک معمولی انسان ہو رسول کیسے بن گئے۔ پھر کتاب پر یقین نہ کرنا پھر پیغمبر کا مذاق اڑانا، تکلیف پہنچانا اور پھر یہ کہنا کہ خواہ مخواہ عذاب سے ڈراتے رہتے ہو۔ لائو عذاب وغیرہ وغیرہ تو حضرت نوح (علیہ السلام) کا مکالمہ اپنی قوم کے ساتھ اور پھر ان کی بددعا اور پھر عذاب کا آنا اور صرف ان لوگوں کا بچ جانا جو رہنمائوں کو سنتے، دیکھتے اور مانتے تھے اور جو نہ سننا چاہتے نہ دیکھنا چاہتے اور نہ ماننا چاہتے تو ایسے لوگ دنیاوی عذاب کا شکار ہو کر نیست و نابود ہوجاتے ہیں اور پھر آخرت میں بھی ان کے لیے دردناک عذاب کی اطلاع ہے۔ طوفان نوح بہت مشہور عذاب ہے قرآن پاک کے علاوہ تاریخ میں بھی اس کا ثبوت ملتا ہے۔ دجلہ و فرات کی سرزمین میں آثار قدیمہ اور طبقات الارض سے ملتا ہے۔ اس طوفان کی روایات قدیم زمانے سے مشہور ہیں حتیٰ کہ آسٹریلیا، امریکہ اور نیوگنی جیسے دور دراز کے علاقوں کی پرانی روایات میں اس کا ذکر ملتا ہے۔ پھر جودی پہاڑ پر اس کشتی کا ٹھہر جانا۔ جودی پہاڑ کردستان کے علاقہ میں جزیرہ ابن عمر کے شمال مشرقی جانب میں واقع ہے۔ یہ ایک عالمگیر طوفان تھا قرآنی اشارات سے یہی واضح ہوتا ہے کہ طوفان نوح کے بعد بچ جانے والے لوگوں سے حیوانات سے دوبارہ دنیا آباد ہونے لگی اور اسی لیے ان کو آدم ثانی کہا جاتا ہے۔ بہرحال یہ دنیا کے لیے عبرت حاصل کرنے کی بہت بڑی مثال ہے۔ اگلی آیات میں بقیہ حصہ طوفان نوح کا بیان کیا جائے گا۔
Top