Mafhoom-ul-Quran - Hud : 45
وَ نَادٰى نُوْحٌ رَّبَّهٗ فَقَالَ رَبِّ اِنَّ ابْنِیْ مِنْ اَهْلِیْ وَ اِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَ اَنْتَ اَحْكَمُ الْحٰكِمِیْنَ
وَنَادٰي : اور پکارا نُوْحٌ : نوح رَّبَّهٗ : اپنا رب فَقَالَ : پس اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب اِنَّ : بیشک ابْنِيْ : میرا بیٹا اَهْلِيْ : میرے گھروالوں میں سے وَاِنَّ : اور بیشک وَعْدَكَ : تیرا وعدہ الْحَقُّ : سچا وَاَنْتَ : اور تو اَحْكَمُ : سب سے بڑا حاکم الْحٰكِمِيْنَ : حاکم (جمع)
اور نوح نے اپنے رب کو پکارا اور کہا کہ اے پروردگار ! میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں میں سے ہے تو اس کو بھی نجات دے تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب سے بہتر حاکم ہے۔
حضرت نوح (علیہ السلام) کی بیٹے کے لیے دعا اور اللہ کی تنبیہ تشریح : ان آیات میں کچھ نکات بیان کیے گئے ہیں۔ مثلاً : 1 پیغمبر بھی انسان ہی ہوتے ہیں شفقت پدری میں کہہ بیٹھے کہ میرا بیٹا کنعان ڈوب رہا ہے اسے بچا لے۔ 2 جواب میں اللہ نے فرمایا کہ بیٹا ہونا کوئی مغفرت کی وجہ نہیں ہوسکتی وہ بداعمال تھا اس لیے ڈوب گیا، لہٰذا یہ طے ہے کہ بخشش کے لیے اعمال کی ضرورت ہے نہ کہ قرابت داری کی۔ اور پھر سید ہونا یا نام کا مسلمان ہونا بخشش کے لیے ناکافی ہے۔ حسب و نسب پر فخر کرنا، برے اعمال کرنا دوزخ سے نہ بچا سکے گا۔ 3 غیر مسلم یا بدکردار انسان کے لیے مغفرت کی دعا نہیں کرنی چاہیے۔ کیونکہ اس کا معاملہ اللہ نے طے کر رکھا ہے اسے سزا ضرور ملے گی۔ اس کے لیے دعا مانگنا گویا اللہ کے کاموں میں دخل دینا ہے۔ 4 اللہ کی رضا پر ہمیشہ راضی رہنا چاہیے۔ وہ جو کرتا ہے بہتر کرتا ہے۔ 5 اگر کبھی کوئی غلطی ارادتاً یا بغیر ارادے کے ہوجائے تو احساس ہونے پر فوراً اللہ سے معافی مانگ لینی چاہیے۔ 6 دین کے مقابلے میں ہر قسم کے جذبات، فائدے اور رشتہ داریوں کو بھول کر صرف اور صرف اللہ کی رضا، اور فرمانبرداری کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ اس طرح انسان دنیا و آخرت میں سرخرو ہوسکتا ہے۔ آئندہ صفحات پر کچھ نقشہ جات قارئین کے افادہ کے لیے دیے جارہے ہیں جو ہم نے تفسیر تفہیم القرآن سے اخذ کیے ہیں یہاں پر تین نمبر تصویر لگے گی یہاں پر 2 نمبر تصویر لگے گی
Top