Mafhoom-ul-Quran - Hud : 6
وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا وَ یَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَ مُسْتَوْدَعَهَا١ؕ كُلٌّ فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ
وَمَا : اور نہیں مِنْ : سے (کوئی) دَآبَّةٍ : چلنے والا فِي : میں (پر) الْاَرْضِ : زمین اِلَّا : مگر عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ رِزْقُهَا : اس کا رزق وَيَعْلَمُ : اور وہ جانتا ہے مُسْتَقَرَّهَا : اس کا ٹھکانا وَمُسْتَوْدَعَهَا : اور اس کے سونپے جانے کی جگہ كُلٌّ : سب کچھ فِيْ : میں كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ : روشن کتاب
اور زمین پر کوئی چلنے پھرنے والا نہیں مگر اس کا رزق اللہ کے ذمے ہے۔ وہ اس کے ٹھہرنے کی جگہ کو بھی جانتا ہے اور اس کے لوٹنے (دفن ہونے) کی جگہ کو بھی، یہ سب کچھ کتاب روشن میں لکھا ہوا ہے۔
ہر جاندار کا رازق اللہ، مذاق کرنیوالوں کا انجام تشریح : آیت نمبر چھ میں اللہ کے رازق اور علیم وخبیر ہونے کی دلیل ہے۔ وہ دنیا کی تمام مخلوقات کو ایسے طریقوں سے رزق پہنچاتا ہے کہ جو انسان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوسکتا، مثلاً ایک واقعہ سنیں ایک شخص روزی رزق کے سلسلہ میں گھر سے نکلا۔ راستہ میں بارش ہوگئی تو وہ بچنے کے لیے ایک غار میں گھس گیا وہاں اس نے ایک اندھا عقاب دیکھا تو وہ سوچنے لگا کہ یہ اندھا عقاب کہاں سے کھاتا ہوگا۔ اچانک ایک کبوتر بارش سے بچنے کے لیے غار میں گھس آیا اور عقاب کے اوپر بیٹھ گیا، عقاب نے اسے دبوچ لیا اور کھالیا۔ وہ شخص اللہ کی قدرت، طاقت اور رازق ہونے کا قائل ہوگیا۔ سوچنے کی بات ہے کہ پتھر کے اندر سمندر کی تہہ میں جہاں بھی کہیں اس کی مخلوق موجود ہے وہ اس کو رزق پہنچاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ سب کام چھوڑ چھاڑ کر بیٹھ جاؤ۔ اللہ نے محنت مشقت کا حکم دیا ہے بس طلب رزق میں اتنا مصروف نہیں ہونا چاہیے کہ نہ صحت کا خیال رہے اور اللہ سے غافل بھی ہوجاؤ۔ توکل علی اللہ بہت ضروری ہے مگر محنت اور کوشش کے ساتھ۔ اس دنیا کا نظام یونہی نہیں چل رہا بلکہ تمام مخلوق کا نباتات، جمادات، حیوانات غرض ایک ایک ذرے کا پروگرام اللہ نے اپنے پاس لوح محفوظ میں لکھ رکھا ہے۔ اللہ کے حکم، منصوبہ یا پروگرام کے بغیر دنیا میں کچھ نہیں ہوسکتا۔ پھر اللہ کی قدرت اور کمال کا ذکر یوں کیا جا رہا ہے کہ اس نے چھ دن میں آسمانوں اور زمین کو بنایا۔ یہ بات قرآن پاک میں سات دفعہ مختلف آیات میں بتائی گئی ہے۔ (1) سورة الاعراف آیت : 54 ۔ (2) سورة یونس آیت : 3 ۔ (3) سورة ھود آیت : 7 ۔ (4) سورة الفرقان آیت : 59 ۔ (5) سورة السجدہ آیت : 4 ۔ (6) سورة ق آیت : 38 ۔ (7) سورة الحدید آیت : 4 ۔ چھ دن کا مسئلہ حل نہیں ہو رہا۔ تفسیر کبیر میں لکھا ہے۔ ” دن ان لفظوں میں جن سے زمانہ تعبیر کیا جاتا ہے سب سے زیادہ مشہور ہے۔ ورنہ آسمانوں کے پیدا ہونے سے پہلے نہ رات تھی نہ دن تھا۔ اور یہ ایسی بات ہے جیسے دوسرے سے کہیں کہ جس دن میں پیدا ہوا ہوں مبارک دن تھا حالانکہ ممکن ہے رات کو پیدا ہوا ہو مگر ایسا ہونا اس کے مطلب سے خارج نہیں ہے کیونکہ اس کی مراد دن کہنے سے وہ زمانہ ہے جس میں وہ پیدا ہوا۔ “ (تفسیر کبیر سورة سجدہ) مطلب یہ ہے کہ دن سے مراد تخلیق کے مختلف مدارج ہیں، یعنی آسمان اور زمین کی تخلیق درجہ بدرجہ، یعنی (Evolutionary Process) سے ہوئی۔ سمجھ یہ آتا ہے کہ کائنات کا ایک آغاز ہے اور یہ ارتقائی منازل سے گزر کر موجودہ شکل میں آئی۔ اسی طرح عرش معلیٰ کا تصور انسان کی عقل و نظر سے باہر ہے۔ قرآن مجید میں جہاں بھی اس تو ٰی علی کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی قرار پکڑنا ہے، بعض لوگ یا گمراہ فرقے اس تو ٰی علی العرش کا مفہوم بیان کرتے ہیں، عرش پر متمکن ہوگیا یا کائنات کے نظام پر غالب آگیا یا زمام اختیار و اقتدار سنبھالی اور اس تو ٰی کا معنی استولیٰ سے کرتے ہیں۔ عرش پر مستوی ہونا یہ اللہ کی صفت ہے۔ اللہ کا عرش کیسا ہے یا اس نے عرش پر کیسے قرار پکڑا ہے، یہ جاننے کے ہم مکلف نہیں ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ : ” اللہ کی مثال بیان نہ کرو “ (16: 74) اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ پانی کی تخلیق آسمان و زمین سے پہلے ہوچکی تھی یہ پانی کہاں تھا یا اس پانی کی کیفیت کیا تھی یہ ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ البتہ یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش سے پہلے تو اللہ کا عرش پانی پر تھا اور تخلیق کے بعد یہ عرش سات آسمانوں اور کرسی سے بھی اوپر ہے۔ سائنسدان اس مسئلہ کے حل میں لگے ہوئے ہیں۔ بس ہم تو یونہی سمجھ سکتے ہیں کہ عرش و کرسی۔ طاقت، برتری اور اختیار کی نشانی ہے۔ جیسے ہم اپنے بادشاہ کو تخت پر بٹھا دیتے ہیں اور اس کی فرمانبرداری میں با ادب کھڑے ہوجاتے ہیں۔ تو یہ عرش حقیقت میں اللہ کے اختیار، بڑائی، قدرت اور مالک کل ہونے کا ایک تصور ہے۔ یہ عالم ازل کی بات ہے انسان اس کو کیسے سمجھ سکتا ہے۔ انسان کا کام تو صرف یہ ہے کہ اس کے سامنے جھک جائے اسی کا فرمانبردار بن کر رہے اور اسی کے احکامات کی پابندی کرے۔ کیونکہ انسان نے ایک دن ضرور اس دنیا سے رخصت ہوجانا ہے اور اللہ کے سامنے حاضر ہو کر اعمال کا بدلہ پانا ہے۔ کافر لوگ اس بات کو مذاق سمجھتے ہیں۔ کیونکہ ان کی عقل اتنی چھوٹی ہے کہ وہ اللہ کے اس بنائے ہوئے پروگرام کو انسان کے پیدا کیے جانے کے مقصد کو اور اللہ کی قدرت کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔ اسی لیے تو مذاق اڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ” بھئی جس عذاب کا ذکر آپ کرتے ہیں تو وہ کیسے اور کب آئے گا، یعنی آکیوں نہیں جاتا ؟ “ ان بیوقوفوں کو کیا معلوم کہ اللہ کے حساب کتاب کے مطابق دنیا کا نظام چل رہا ہے جو وقت جس عذاب کے لیے مقرر کردیا گیا ہے وہ عین اس وقت آجائے گا۔ نہ ایک گھڑی آگے ہوگا نہ ایک گھڑی پیچھے ہوگا۔ اور یہ سب اس کی لپیٹ میں آجائیں گے۔ ان آیات کی روشنی میں آج کے بڑے بڑے سائنسدانوں اور کفار و مشرکین کو اچھی طرح سمجھایا جاسکتا ہے۔ کہ کائنات ہمیشہ سے نہیں ہے اور نہ ہمیشہ رہے گی۔ اللہ نے اس کو بنایا ہے اور کائنات کا ذرہ ذرہ ہر چیز خاص ڈیزائن کے مطابق اللہ کے حکم سے بنائی گئی ہے۔ ایک ایک ذرہ تمام مخلوقات، نباتات، جمادات ارض و سموات غرض ہر چیز خاص مقصد، حساب، نمونہ اور پروگرام کے مطابق بنائی گئی ہے اور خاص نظام کے تحت چل رہی ہے اور خاص وقت پر ختم کردی جائے گی۔ اس کے پیدا کرنے، چلانے، ختم کرنے اور پھر دوبارہ پیدا کرنے میں کوئی دخل نہیں دے سکتا کیونکہ اس کا خالق، مالک اور حاکم اللہ وحدہٗ لا شریک ہے۔ ملحدسائنس دانوں کا یہ کہنا ہے دنیا ہمیشہ سے ہے یا کسی حادثہ سے وجود میں آگئی بالکل غلط ہے۔ قرآن پاک میں جگہ جگہ اس حقیقت کو واضح کیا گیا ہے جیسا کہ ارشاد فرمایا ” ہم نے زمین اور آسمان اور جو کچھ اس کے اندر ہے، بےمقصد پیدا نہیں کیا بلکہ یہ حق کے ساتھ ہے۔ یہ سب کچھ ایک خاص اندازے سے ایک خاص وقت تک ہے۔ (سورۃ الاحقاف آیت 3 )
Top