Mafhoom-ul-Quran - Hud : 96
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰیٰتِنَا وَ سُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍۙ
وَ : اور لَقَدْ اَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجا مُوْسٰى : موسیٰ بِاٰيٰتِنَا : اپنی نشانیوں کے ساتھ وَ : اور سُلْطٰنٍ : دلیل مُّبِيْنٍ : روشن
اور ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں اور دلیل روشن دے کر بھیجا۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا پیغام فرعون کی نافرمانی اور برا انجام تشریح : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں پہلے بھی بتایا جا چکا ہے یہ بنی اسرائیل کے پیغمبر تھے اور بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم و ستم سے نجات دلانے کے لیے بھیجے گئے تھے یہاں ان کا ذکر اس لیے کیا جا رہا ہے۔ کہ ان آیات سے پہلے کئی ایسی نافرمان قوموں کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ لوگ ان کے برے انجام سے عبرت حاصل کریں۔ اب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کا ذکر اور انجام، مذکورہ آیات میں بڑی وضاحت سے کیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح برے لیڈر کی پیروی دنیا میں ہلاکت کا باعث بنی اسی طرح آخرت میں بھی سوائے جہنم کے اور کچھ نہ ملے گا اور جہنم بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حق و باطل کی تمیز انسان کو خود اپنی عقل سے کرنی چاہیے یہ نہیں کہ آنکھیں بند کر کے کسی کے پیچھے لگ جائیں۔ کیونکہ اپنے اعمال، نیتیں اور اعتقادات ہی اپنے کام آتے ہیں اور آخرت میں بھی کام آئیں گے۔ عقل کو کام میں لا کر زندگی گزارنی چاہیے ان آیات سے یہی سبق ملتا ہے کہ ہدایت، حکمت اور نیکی جہاں سے بھی ملے پلے باندھ لینی چاہیے ورنہ پھر فرعون اور اس کے درباری اور اس کے پیروکاروں جیسا ہی حال ہوگا۔ فرعون نے اپنی کرسی بچانے کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) کی تعلیمات سے انکار کیا کہ کہیں لوگ میرے دبدبے سے نکل کر موسیٰ (علیہ السلام) کے پیچھے نہ جا لگیں اور درباریوں نے محض چمچہ گیری اور چاپلوسی اور اپنے عہدے بچانے کے لیے اس کی ہاں میں ہاں ملائی اور موسیٰ (علیہ السلام) کی سچی دعوت کو ٹھکرا دیا اور باقی قوم بھی ان کے دیکھا دیکھی فرعون کی غلط پیروی کرتی رہی یہ نہ سوچا کہ انجام کیا ہوگا اور اس برے انجام سے فرعون ان کو بچا نہ سکے گا۔ بلکہ دنیا میں بھی فرعون کے ساتھ ہی غرق ہوئے ذلت و رسوائی پائی اور آخرت میں بھی فرعون کی قیادت (سرداری) میں جہنم میں پہنچ جائیں گے جہاں سوائے عذاب ذلت و خواری کے اور کچھ نہ ہوگا۔ اور یہ بڑا ہی برا انجام ہے جو ان کا ہوگا۔
Top