Mafhoom-ul-Quran - Ibrahim : 31
قُلْ لِّعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ یُنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْهِ وَ لَا خِلٰلٌ
قُلْ : کہ دیں لِّعِبَادِيَ : میرے بندوں سے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اٰمَنُوْا : ایمان لائے يُقِيْمُوا : قائم کریں الصَّلٰوةَ : نماز وَيُنْفِقُوْا : اور خرچ کریں مِمَّا : اس سے جو رَزَقْنٰهُمْ : ہم نے انہیں دیا سِرًّا : چھپا کر وَّعَلَانِيَةً : اور ظاہر مِّنْ قَبْلِ : اس سے قبل اَنْ يَّاْتِيَ : کہ آجائے يَوْمٌ : وہ دن لَّا بَيْعٌ : نہ خریدو فروخت فِيْهِ : اس میں وَلَا خِلٰلٌ : اور نہ دوستی
(اے پیغمبر ﷺ ! ) میرے مومن بندوں سے کہہ دو کہ نماز پڑھا کریں اور اس دن کے آنے سے پیشتر جس میں نہ اعمال کا سودا ہوگا اور نہ دوستی کام آئے گی ہمارے دیے ہوئے مال میں سے درپردہ اور ظاہر خرچ کرتے رہیں۔
صالح اعمال اور اللہ کے احسانات تشریح : یہ آیات مومن بندوں کو اس کی حیثیت، فرائض، اللہ کی وحدانیت، اس کے احسانات جو انسان پر کیے گئے اور تمام کائنات کا نقشہ بڑے ہی بہترین، جامع اور مختصر انداز میں بیان کر رہی ہیں۔ مخاطب پیارے رسول ﷺ کو کیا گیا ہے کہ ایمان لانے والے بندوں کو بتا دو کہ وہ اشرف المخلوقات ہیں اور زمین میں ان کو اللہ کا نائب بنا کر بھیجا گیا ہے۔ اللہ جو مالک کائنات اور مالک روز جزا، منصف (انصاف کرنے والا) رحیم و جبار، سمیع وبصیر، غفور الرحیم اور ناظم اعلیٰ بادشاہوں کا بادشاہ ہے، ایسے عظیم الشان رب العلمین کا نائب یا خلیفہ ہونا کوئی معمولی بات نہیں، اس لیے انسان کو اپنے مالک کو پہچان کر اپنی پہچان بھی کر لینی چاہیے، سب سے پہلے تو ان فرائض کو خوش دلی سے پورا کرے جو اس کو اللہ کی طرف سے بتائے گئے ہیں مثلاً نماز قائم کرنا، صدقہ و خیرات کرنا۔ (ان کے بارے میں بڑے تفصیل سے بیان کیا جا چکا ہے) پھر اس کی توجہ ان تمام احسانات کی طرف کروائی گئی ہے جو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اس پر کیے ہیں۔ وہ اتنے بیشمار اور بےمثال ہیں کہ اگر ان کو گنا جائے تو انسان گن نہ سکے۔ تو پھر انسان کو کیا مشکل ہے کہ اس قدر مہربان اور عظیم الشان رب العلمین کے دیے ہوئے احکامات کو پورا کرتے ہوئے اس کا شکر ادا نہ کرے اور اس کی دی ہوئی نعمتوں کو بجا طور پر استعمال نہ کرے اور ان سے پورا پورا فائدہ نہ اٹھائے۔ انسان کا فرض ہے کہ اپنی نیابت الٰہی (اللہ کا نائب ہونا) کو سامنے رکھتے ہوئے حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پوری تن دہی سے پورا کرے تاکہ آخرت میں بلند درجات حاصل کرسکے۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ بن جائے اللہ کا نائب اور زندگی گزارے شیطان کی فرمانبرداری میں۔ اگر ایسا کرے گا تو خود اپنا ہی نقصان کرے گا اس سے نہ تو اللہ کو کوئی نقصان ہوگا اور نہ ہی کائنات کو کوئی فرق پڑے گا۔ کیونکہ انسان کو کائنات اور اس کی ہر چیز کی ضرورت ہے۔ کائنات کو قائم رہنے کے لیے انسان کی ضرورت نہیں بلکہ کائنات کا نظام تو انتہائی منظم اور بہترین طریقہ سے اللہ تعالیٰ نے ترتیب دے رکھا ہے کہ انسان کو صدیاں گزر گئیں اس کو سمجھنے میں اور ابھی تک صرف الف۔ ب۔ ہی سمجھ سکا ہے۔ اور جو سیکھ سمجھ سکا ہے وہ بھی اتنا بیشمار ہے کہ گنتی میں لانا مشکل ہے۔ کل کائنات اور اللہ کے تمام احسانات کا تو کوئی حساب ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ناانصاف اور ناشکرا کہا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ انصاف سے کام نہیں لیتا کیونکہ اکثر لوگ مصیبت اور پریشانی میں اللہ کی دی ہوئی باقی تمام نعمتوں کو بھول کر موجودہ پریشانی یا مصیبت پر واویلا کرنے لگتے ہیں بجائے یہ سوچنے کے کہ اگر وقتی طور پر کوئی پریشانی آگئی ہے تو کوئی بات نہیں اللہ کی طرف سے آئی ہے ضرور اس میں بھی کوئی مصلحت ہوگی بعض اوقات اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو آزمانے کے لیے بھی مشکلات میں ڈال دیتا ہے۔ تاکہ اس کے خلوص کو آزمائے اور باقی تمام ملی ہوئی نعمتوں کو یاد کر کے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا شکر ادا کرے وہ اللہ سے گلے شکوے کرنے لگتے ہیں۔ جب کہ مخلص مومن کی صفت ہے صَبَّارٌ اور شُکُوْرٌ یعنی صبر کرنے والا اور شکر کرنے والا کیونکہ پکا مسلمان مصیبت پر صبر اور راحت پر شکر ادا کرتا ہے مگر اکثر لوگ ایسا نہیں کرتے۔ جہاں بہترین زندگی گزارنے کے اور بہت سے اصول مسلمان کو قرآن پاک میں سکھائے گئے ہیں وہاں یہ بھی ایک بہت بڑا اصول بتایا گیا ہے کہ صبر اور شکر ہماری زندگیوں کو آسان اور پر سکون بناتے ہیں۔ ” مصیبت پر صبر کرنا عبادت ہے۔ “ (نسائی) ایک اور جگہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ” جو پریشان ہو اس نے گویا صبر نہیں کیا۔ “ (مسلمان کو چاہیے کہ دنیاوی امور میں ہراساں نہ ہو اور اللہ پر توکل رکھے) ۔ (ابن عساکر)
Top