Mafhoom-ul-Quran - Al-Hijr : 16
وَ لَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَآءِ بُرُوْجًا وَّ زَیَّنّٰهَا لِلنّٰظِرِیْنَۙ
وَلَقَدْ جَعَلْنَا : اور یقیناً ہم نے بنائے فِي : میں السَّمَآءِ : آسمان بُرُوْجًا : برج (جمع) وَّزَيَّنّٰهَا : اور اسے زینت دی لِلنّٰظِرِيْنَ : دیکھنے والوں کے لیے
اور ہم نے ہی آسمان میں برج بنائے اور دیکھنے والوں کے لیے ان کو سجا دیا۔
ستاروں اور سیاروں کا مقصد تشریح : ان آیات میں کائناتی ردوبدل کی طرف اشارہ ملتا ہے سب سے پہلے تو ہم برج کی وضاحت کریں گے۔ اس کی جمع بروج ہے۔ لفظی مطلب ہے عمارت کی وہ سب سے اونچی جگہ جو نمایاں دکھائی دے یہاں مراد ستاروں کے گچھے ہیں جو آسمان میں چمکتے ہوئے انتہائی خوبصورت نظر آتے ہیں اور یا پھر فضاء بسیط میں وہ خطے ہیں جن میں سے ہر خطے کو مضبوط سرحدوں نے دوسرے خطے سے محفوظ اور جدا کر رکھا ہے۔ جیسا کہ ہماری زمین کو کئی تہوں میں چاروں طرف سے محفوظ کردیا گیا ہے۔ مختلف قسم کی گیسوں کے غلاف زمین کو باہر کی آفات سے محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔ جیسا کہ مشاہدات سے معلوم ہوا ہے کہ بیشمار شہاب ثاقب زمین کی طرف آتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جو کہ تعداد میں تقریباً 10 کروڑ روزانہ زمین کی طرف آتے ہیں جو زمین پر گرنے سے پہلے ہی مل یا میٹ ہوجاتے ہیں۔ زمین کی بیرونی فضا اور خلاء کا نظام ان کو ختم کردیتا ہے۔ ورنہ تو زمین کا باقی رہنا محال ہوجاتا۔ یہ بہترین نظام سوائے اللہ مصور عظیم کے اور کون کرسکتا ہے۔ شہاب مبین کا مطلب ہے روشن شعلہ۔ دوسرا مقصد جو ان آیات میں ملتا ہے بحوالہ تفہیم القرآن وہ یہ ہے کہ ” جس طرح زمین کی دوسری مخلوقات زمین کے خطے میں مقید ہے اسی طرح شیاطین بھی اسی خطے میں مقید ہیں۔ عالم بالا تک ان کی رسائی (پہنچ) نہیں۔ شیاطین کی پرواز بھی محدود ہے یہ نہیں کہ وہ جہاں تک چاہیں پرواز کرسکیں۔ “ جیسا کہ قرآن پاک میں اسی سورت کی آیات نمبر 17 اور 18 میں صاف صاف بتایا گیا ہے۔ ” اور ہم نے اس کو ہر شیطان مردود سے محفوظ کیا۔ ہاں ! اگر کوئی چوری سے سننا چاہے تو اس کے پیچھے چمکتا ہوا انگارا لپکتا ہے۔ “ مولانا محمد شفیع صاحب نے اس کا خلاصہ بڑے ہی خوبصورت الفاظ میں یوں بیان کیا ہے۔ موصوف لکھتے ہیں کہ : ” خلاصہ کلام یہ ہے کہ شہاب ثاقب کے متعلق جو کچھ فلاسفہ نے کہا ہے، وہ بھی قرآن کے منافی (خلاف) نہیں، اور یہ بھی کچھ بعید نہیں کہ یہ شعلے براہ راست (سیدھے) بعض ستاروں سے ٹوٹ کر گرائے جاتے ہوں، مقصد قرآن دونوں صورتوں میں ثابت اور واضح ہے۔ “ (ازمعارف القرآن) پیر محمد کرم شاہ صاحب شہاب ثاقب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ : ” شہاب ثاقب کے ٹکڑے مختلف عجائب خانوں میں موجود ہیں۔ سب سے بڑے ٹکڑے کا وزن تقریباً چالیس ٹن ہے یہ ٹکڑا جنوب مغربی افریقہ میں ہے اس سے کم وزن کا ایک ٹکڑا جو گرین لینڈ میں گرا تھا اس کا وزن 36/1/2 ٹن ہے اسے کمانڈر پیری وہاں سے اٹھوا کر نیویارک لے آئے۔ (انسائیکلوپیڈیا گرولیر) مگر سائنسدانوں نے ان کو شہاب ثاقب ماننے سے انکار کردیا، اس لیے اٹھارہ سو تین میں پیرس کے قریب ہی تین ہزار شہاب ثاقب کا مینہ برسا اور اس قدرت نے ان سائنسدانوں کا غرور توڑا۔ کیونکہ اٹھارہویں صدی میں پیرس کی سائنس اکیڈیمی نے شہاب ثاقب کا انکار کردیا تھا۔ (انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا، جلد 15 صفحہ 341 از ضیاء القرآن جلد دوم) یوں شہاب ثاقب کا زمین پر گرنا۔ انسان کو ہوشیار کرنے کے لیے اللہ کی قدرت کا ایک ذریعہ بنا۔ کیونکہ وہ مالک و خالق ہے جو چاہے کر دکھائے اس کے لیے کوئی بات نہ مشکل ہے نہ ناممکن ہے۔ جیسا کہ مولانا ابو الا علیٰ مودودی صاحب لکھتے ہیں کہ : ” بارہا ایسا بھی ہوا ہے کہ برہنہ آنکھوں نے بھی ٹوٹنے والے تاروں کی غیر معمولی بارش دیکھی۔ مثلاً یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ 13 نومبر 1833 ء کو شمالی امریکہ کے مشرقی علاقے میں صرف ایک مقام پر نصف شب (آدھی رات) سے لے کر صبح تک 2 لاکھ شہاب ثاقب دیکھے گئے۔ (انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا۔ 1946 ء جلد 15 ۔ صفحات 337 تا 339 از تفہیم القرآن جلد دوم صفحہ 501 )
Top