Mafhoom-ul-Quran - Al-Hijr : 6
وَ قَالُوْا یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْ نُزِّلَ عَلَیْهِ الذِّكْرُ اِنَّكَ لَمَجْنُوْنٌؕ
وَقَالُوْا : اور وہ بولے يٰٓاَيُّھَا : اے وہ الَّذِيْ نُزِّلَ : وہ جو کہ اتارا گیا عَلَيْهِ : اس پر الذِّكْرُ : یاد دہانی (قرآن) اِنَّكَ : بیشک تو لَمَجْنُوْنٌ : دیوانہ
اور کفار کہتے ہیں کہ اے شخص جس پر نصیحت کی کتاب نازل ہوئی ہے تو تو دیوانہ ہے۔
کفار کا نبی ﷺ کو مجنون کہنا اور فرشتوں کے نزول کا مطالبہ تشریح : اسی مضمون کی آیات پچھلے اسباق میں بھی گزر چکی ہیں۔ مقصد صرف یہ ہے کہ کفار مکہ اور آج کل کے کفار میں کوئی خاص فرق نہیں۔ صرف اتنا فرق ہے کہ وہ ان پڑھ جاہل اور انتہائی وحشی لوگ تھے۔ ان کو سیدھے راستے پر لانا نبی اکرم ﷺ کا ہی حوصلہ تھا۔ آجکل کے پڑھے لکھے سمجھدار لوگ بھی صرف اپنی ضد کی وجہ سے ایمان نہیں لاتے، حالانکہ قرآن حکیم اتنا زبردست معجزہ ان کے سامنے ہے اسی سے سائنس اور حکمت کے بنیادی اصول لے کر بڑی بڑی سائنسی ایجادات کر رہے ہیں۔ مگر مانتے نہیں۔ قرآن میں جو کچھ حقائق بتائے گئے ہیں وہ اتنے محکم، پکے اور لازوال ہیں کہ ان کا مقابلہ کوئی بڑے سے بڑا مفکر، سائنسدان، حکیم اور عالم و فاضل بھی نہیں کرسکتا۔ سب جانتے ہیں کہ یہ قرآن چودہ سو سال پہلے نبی اکرم ﷺ پر نازل ہوا۔ اس میں ایک نکتہ سے لے کر پورے قرآن تک کوئی شخص تبدیلی نہیں کرسکا اور نہ ہی کرسکے گا۔ کیونکہ اس کی حفاظت کا ذمہ خود رب العلمین، علیم و کبیر اور حفیظ و نصیر نے لے رکھا ہے۔ مذکورہ آیات میں تین دفعہ ” ہم “ کا لفظ استعمال کر کے اس بات کو اور بھی مضبوط اور پکا کردیا ہے کہ یہ کسی معمولی ہستی کی طرف سے نہیں بھیجی گئی کہ یہ غیر معیاری ہو یا کوئی بھی اس میں تبدیلی کرنے کی جرأت کرسکے۔ جس قدر آسمانی کتابیں نازل ہو چکیں ان سب کو تبدیل کردیا گیا مگر قرآن پاک کیونکہ اللہ کی حفاظت میں ہے اس لیے یہ کبھی تبدیل نہ ہو سکے گا۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے۔ جو عظیم ہے واحد ہے، مالک کون و مکاں ہے، قادر مطلق ہے۔ اور پھر قرآن پاک کی ہدایت کے مطابق، آپ ﷺ کا اسوہ حسنہ ہمارے لیے نمونہ ہے۔ کیونکہ آپ کی سیرت و کردار قرآن کی تفسیر ہے۔ آپ کی زندگی کا ہر عمل اور آپ کے فرمان کا ہر لفظ مسلمانوں کے لیے محترم، مقدس، قابل احترام اور باعث نجات ہے کیونکہ آپ کا ہر قول اور ہر فعل قرآن کے قوانین، فرامین اور ہدایات کے عین مطابق ہے۔ احادیث کا درجہ اسی لیے بےحد بلند ہے۔ شرط یہ ہے کہ وہ مستند اور قوی احادیث ہوں۔ ڈاکٹر غلام مرتضیٰ صاحب انوار القرآن میں لکھتے ہیں کہ : ” انسانی تاریخ میں جتنی تحقیق حدیث کے فن پر کی گئی ہے، آج تک کسی اور فن پر اتنی محنت نہیں کی گئی ہے۔ یعنی دس لاکھ محدثین ہمارے سامنے موجود ہیں۔ جنہوں نے انتہائی محنت، احتیاط اور بڑی ہی چھان بین کے بعد ہمیں بہترین، صحیح اور محکم احادیث کے مجموعے عطا کیے۔ “ پھر قرآن خود کہتا ہے :”(اے نبی ا ! ) ہم نے آپ کی طرف ذکر نازل کیا تاکہ آپ لوگوں پر واضح طور پر بیان کردیں جو ان پر نازل کیا گیا ہے۔ “ (سورۃ النحل آیت : 44) معلوم یہ ہوا کہ جو نازل کیا گیا ہے اس کے علاوہ بھی ایک ذکر، اللہ نے حضور اکرم ﷺ پر نازل کیا ہے اور یہی وہ ” الحکمت “ ہے جو قرآن پاک کی عملی تفسیر ہے، اور یہی سیرت و سنت ہے۔ خود قرآن سے ثابت ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک تو وہ وحی جو قرآن کی شکل میں موجود ہے اور دوسرے وہ حکمت جو حضور اکرم ﷺ کے دل پر القاء (الہام) کی گئی ہے، دونوں کو ” ذکر “ کے لقب سے ملقب (کیا گیا) فرمایا ہے۔ اس لیے کہ وہ الفاظ کی بجائے حضور اکرم ﷺ کی عملی زندگی کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔ اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ قرآن مجید کے الفاظ کی بھی حفاظت کی گئی ہے جو مصحف (کتاب) کی صورت میں ہمارے ہاتھوں میں ہے اور اس کے معنی (تفسیر، سیرت النبی ﷺ کی بھی حفاظت کی گئی ہے جو حضور اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ اور احادیث کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ “ (انوار القرآن) ثابت ہوگیا کہ قرآن و سنت مسلمانوں کے لیے مقدس اور ضروری ہیں دونوں کا اتباع (عمل کرنا اور پیروی کرنا) ہر مسلمان پر فرض اور ضروری ہے۔ دعا ہے اللہ ہماری مدد فرمائے اور ہمیں قرآن و سنت پر مکمل طور پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
Top