Mafhoom-ul-Quran - Al-Hijr : 89
وَ قُلْ اِنِّیْۤ اَنَا النَّذِیْرُ الْمُبِیْنُۚ
وَقُلْ : اور کہ دیں اِنِّىْٓ : بیشک میں اَنَا : میں النَّذِيْرُ الْمُبِيْنُ : ڈرانے والا علانیہ
اور فرمادیں کہ میں تو اعلانیہ ڈر سنانے والا ہوں۔
اعلانیہ تبلیغ کا حکم تشریح : ان آیات میں کفار کے انجام کا ذکر کیا گیا ہے اور اسلام کی اشاعت و تبلیغ علانیہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ آخر میں مصیبت و پریشانی سے نجات حاصل کرنے کا طریقہ بتایا گیا ہے، یعنی اللہ کی طرف رجوع کرنا۔ قرآن کے ٹکڑے کرنے والوں سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی آسمانی کتابوں تورات اور انجیل کے احکامات کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا تھا، یعنی جو دل چاہا حکم مان لیا اور جو دل نہ چاہا حکم نہ مانا۔ اس کام کی پوچھ ان سے ضرور ہوگی کیونکہ نبی اکرم ﷺ ایک انسان ہی تھے۔ رسالت کے بعد آپ پر اور آپ کے ماننے والوں پر جو کچھ ظلم و ستم ہوا وہ کسی سے چھپا ہوا نہیں تو آپ بھی پریشان ہوجاتے تھے، اللہ تو ہر دل کا حال خوب جانتا ہے اس لیے آپ کی ہمت بندھانے اور تسلی دینے کے لیے فرمایا کہ کسی سے مت ڈریں، کسی سے مت گھبرائیں، کسی کی پرواہ مت کریں، اب وقت آگیا ہے، اللہ کا نام لے کر علانیہ تبلیغ دین شروع کردیں، پس اب ہمت سے کام شروع کردیں، بیشک اللہ تمہارا بہترین مددگار ہے۔ بھلا اللہ کا مقابلہ کون کرسکتا ہے، یعنی ” ہمت مرداں مدد خدا “ اور پھر آپ جیسا متقی، پرہیزگار، محبوب خدا، مرد کامل جب اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر چل پڑے گا تو بھلا اس کا مقابلہ یہود، کفار اور مشرکین کیسے کرسکتے ہیں۔ وہ تو یقیناً دنیا میں بھی رسوا ہوں گے اور آخرت میں بھی رسوا ہوں گے اور پھر آخر میں سکون دل، ہمت و استقلال اور کامیاب و کامران ہونے کا وہ طریقہ بھی بتا دیا جو صرف اللہ کے مقبول بندوں کے لیے ہی ہے یا یوں کہیں کہ جب کوئی بندہ اللہ کے سامنے عجزو انکساری سے سجدہ ریز ہوجاتا ہے تو اس کے تمام دکھ درد پریشانیاں اور زحمتیں، سکھ، چین، امن و سکون اور رحمتوں میں بدل جاتی ہیں کیونکہ قرآن میں شفاء بھی ہے اور حکمت بھی ہے۔ اور دل کی تنگی کا علاج رب العزت نے ان الفاظ میں بتایا ہے : ” اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو، اس کے سامنے سجدہ کرو اور موت کے آنے تک رب کی بندگی کرتے رہو۔ “ تمام دنیا کے انسانوں کے لیے بڑا واضح اور بہترین پیغام یہ ہے کہ نیکی پھیلاتے وقت خود کو اکیلا نہ سمجھو۔ ایک فرد سے ہی دنیا آباد ہوئی ہے۔ جب انسان فضائل اخلاق کا سرچشمہ ہو، سعادت اس کی منزل ہو، ارادہ سچا، پکا اور خالص ہو اور مقصد عظیم ہو۔ تو اللہ اس کا مددگار یقینی ہوتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ کی زندگی ہم سب کے لیے رشدو ہدایت کا بہترین نمونہ ہے اللہ و رسول کی اطاعت کا بہت بڑا اجر ہے۔ اللہ فرماتا ہے : ” جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے۔ تو وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے انعام کیا ہے، جیسے نبی صدیق، شہید اور نیک لوگ، یہ بہترین رفیق ہیں۔ “ ( سورة النساء آیت 69 ) جب ہم نبی آخرالزماں کی حیات طیبہ پر نظر ڈالتے ہیں تو ان کی اولوالعزمی، مستقل مزاجی، شجاعت، توکل اور ایمان کی مضبوطی اور اللہ کی مدد کے بیشمار واقعات دکھائی دیتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے تن تنہا توحید کا نعرہ بلند کیا اور اللہ کی مدد سے تھوڑی ہی مدت میں پورے عرب کو ایمان کے نور سے منور کردیا اور پھر ایسے ایسے بہترین، بہادر، جنگجو قابل فخر مجاہد پیدا ہوئے کہ آپ ﷺ کے وصال کے صرف چار سال بعد 15 ہجری میں ہند پر عرب مسلمانوں کی طرف سے فوج کشی کا آغاز ہوا جو پھیلتا چلا گیا۔ تاریخ میں بیشمار نامور، بہادر، مجاہدین سپاہ سالاروں کے نام درج ہیں، جن کی زندگیاں ہمارے لیے بہترین نمونہ ہیں۔ ہمارے فرائض میں شامل ہے کہ قوم کا ہر فرد بچوں کو ایسی نامور شخصیات کے حالات زندگی سنائے تاکہ ہمارا ہر بچہ شروع سے ہی دل و دماغ میں نور ایمانی اور اخلاقی فضائل لے کر میدان عمل میں آئے اور عملی زندگی میں ابوبکر صدیق ؓ کی فہم و فراست اور قوت تدبر، حضرت عمر ؓ کی قوت فیصلہ، جرأت و شجاعت، حضرت عثمان غنی ؓ کا تقو ٰی، تلاوت قرآن اور انفاق فی سبیل اللہ اور حضرت علی ؓ کی بہادری، قوت فیصلہ، حضرت عمر بن عبدالعزیز کا انداز حکمرانی، حضرت خالد بن ولید کی جنگی مہمات اور اسی طرح دوسرے صحابہ کرام کی دوسری اہم خصوصیات اس کے سامنے ہوں اور انہی کی سیرت و کردار کو اپناکروہ میدان عمل میں آئے اور بچوں کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارے قومی ہیروز یہی تھے جن کا ذکر کیا گیا ہے۔ مسلمانوں نے صرف جنگ کے میدان میں ہی برتری حاصل نہیں کی بلکہ دینی علوم، طب، ریاضی، فلکیات، علم کیمیا، فلسفہ اور دوسرے سائنسی علوم میں بھی بڑا نام پایا اور بڑے بڑے نامور مفکرین پیدا ہوئے۔ مثلاً خالدبن یزید، حکیم یحییٰ منصور، احمد بن موسیٰ شاکر، جابر ابن حیان، ابن خلدون، ابن الہثیم، خیام، رازی، ابن رشد وغیرہ اور موجودہ زمانے میں بھی مسلمانوں کے پاس ایسے ایسے انسٹیٹیوٹ موجود ہیں جہاں پر ہزاروں نوجوان ریسرچ میں مصروف ہیں اور دنیا کی تیز ترین ترقی کے ساتھ ساتھ ان کی محنت بھی شامل ہے۔ جن کی کہانیاں بچوں کو سنا کر ان میں جوش، جذبہ، ولولہ اور نور ایمانی پیدا کیا جاسکتا ہے۔ اور یوں ہم اپنے بچوں، جوانوں کو رشد و ہدایت اور حکمت سے متعارف کروا سکتے ہیں۔ اور پھر رسول مقبول کی اس حدیث پر عمل پیرا ہوسکتے ہیں۔ ” حکمت مسلمانوں کی کھوئی ہوئی میراث ہے اس لیے وہ جہاں ملے حاصل کرلو۔ ، ، ہمیں اس دور میں اس کی بےحد ضرورت ہے۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں ؎ ضمیر لالہ میں روشن چراغ آرزو کر دے چمن کے ذرے ذرے کو شہید جستجو کر دے علامہ اقبال مطلب یہ ہے کہ اقبال اپنے آپ کو یاقائدین قوم کو مشورہ دیتے ہیں کہ جب حالات سازگار ہیں تو پھر تمہارا فرض ہے کہ تم مسلمان کے دل و دماغ میں آزادی، بیداری، ترقی اور اسلام کی روشنی پیدا کر دو ۔ تاکہ وہ سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ کر زندگی کا سفر طے کریں اور دنیا و آخرت میں کامیاب و کامران ہو سکیں۔ آمین۔ الحمدللہ کہ سورة الحجر مکمل ہوگئی۔
Top