Mafhoom-ul-Quran - An-Nahl : 105
اِنَّمَا یَفْتَرِی الْكَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ١ۚ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں يَفْتَرِي : بہتان باندھتا ہے الْكَذِبَ : جھوٹ الَّذِيْنَ : وہ لوگ لَا يُؤْمِنُوْنَ : جو ایمان نہیں لاتے بِاٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی آیتوں پر وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ هُمُ : وہ الْكٰذِبُوْنَ : جھوٹے
جھوٹ افترا تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے وہی جھوٹے ہیں۔
کفار کے کرتوت اور ان کا انجام تشریح : ان آیات میں پچھلی آیات کا جواب اس طرح دیا گیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ پر جو الزام لگایا گیا کہ یہ چند غلاموں سے پوچھ کر قرآن بنا لائے ہیں تو یہ ہر صورت بہتان ہے کیونکہ ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ تو ہمیشہ سے پاکباز اور سچے اور امین مشہور ہیں وہ ہرگز کبھی جھوٹ نہیں بول سکتے دوسری بات یہ ہے کہ قرآن کی سچائی بیشمار طریقوں سے ثابت ہوچکی ہے۔ سیدنا عمار بن یاسر ؓ کے سامنے ان کے والد یاسر اور ان کی والدہ سمیہ کو شہید کیا گیا (چونکہ عمار اور ان کے والدین ابو جہل کے غلام تھے) چناچہ عمار ؓ نے وہ کچھ کہہ دیا جو کفار آپ سے کہلوانا چاہتے تھے، پھر رسول کریم ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور یہ سب کچھ بیان کیا کہ میں نے کفار کے پاس آپ ﷺ کو برا بھلا کہا اور ان کے معبودوں کا ذکر خیر کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اپنے دل کی کیفیت بتاؤ ؟ سیدنا عمار ؓ کہنے لگے کہ میرا دل تو ایمان پر مطمئن ہے۔ آپ نے فرمایا : اگر پھر کبھی ایسی صورت پیش آئے تو رخصت سے فائدہ اٹھالینا، اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ (صحیح بخاری) جس شخص کو کفر پر مجبور کیا جائے اور وہ جان بچانے کے لیے زبان سے یا عمل سے کفر کا اقرار کرلے، جب کہ اس کا دل پوری طرح ایمان پر قائم ہو، تو وہ کافر نہیں ہوگا، نہ اس کی بیوی اس سے جدا ہوگی اور نہ اس پر دیگر احکام کفر لاگو ہوں گے۔ “ (از فتح القدیر) جیسا کہ حرام حلال میں چھوٹ دی گئی ہے اسی طرح اس میں بھی نرمی رکھی گئی ہے کہ جان بچانے کے لیے صرف ظاہری اور عارضی طور پر اس کی اجازت ہے۔ ورنہ تو حرام کھانے والا اور ایمان لانے کے بعد کفر کرنے والا اللہ کے عذاب سے ہرگز بچ نہ سکے گا۔ ایسے لوگوں کے لیے بڑا سخت عذاب ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ جو لوگ جان بوجھ کر کفر کی راہیں اختیار کرتے ہیں تو ان کے لیے وہی راہیں کھول دی جاتی ہیں جیسا کہ سورة بقرہ میں گزر چکا ہے۔ کہ ایسے لوگ پھر اندھے گونگے اور بہرے کردیے جاتے ہیں کہ چلو جاؤ پھر کفر کی دلدل میں ڈوبتے جاؤ۔ کیونکہ اللہ نے انسان کو حکمت و دانائی دی ہے۔ جیسا کہ ابن مسکو یہ کہتا ہے۔ ” حکمت و دانائی۔ تدبر اور تفکر کا نام ہے : مگر خلوص نیت اور بوجہ اللہ شرط ہے، تمام مسائل پر جو زندگی سے متعلق ہیں احتیاط سے غور کرنا۔ اللہ کی خوشنودی کو ہر حال میں پیش نظر رکھنا۔ اللہ کی مصلحتوں سے غافل نہ رہنا۔ نشیب و فراز کو سمجھنا، اور پورے عزم کے ساتھ ایک فیصلہ کرلینا۔ (از مسلمان سائنس دان اور ان کی خدمات مصنف ابراہیم عمادی ندوی) کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایسے مضبوط ارادے کے لوگ کامیاب لوگ ہوتے ہیں اسی لیے رب العزت بھی ان کے لیے نیک اور سیدھی راہیں آسان کردیتا ہے اور شیطان تو ویسے ہی ان سے گھبراتا ہے۔ اس کا دائو ان پر چلنا بہت مشکل کام ہے۔ پھر مکہ کے مسلمانوں کی مثال دے کر اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو بتاتے ہیں کہ جس طرح ان لوگوں نے کفار مکہ کی بےحدو حساب اذیتیں برداشت کیں، پھر اللہ کی خوشنودی اور اسلام کی محبت میں اپنے مال و دولت، جائیداد اور رشتہ داروں کو چھوڑ کر حبشہ اور پھر بعد میں مدینہ کی طرف ہجرت کی، پھر جب جہاد کا حکم ہوا تو اللہ کا نام لے کر دشمن کے مقابلہ میں بےدھڑک چل نکلے تو ایسے لوگوں کی مدد بھلا الہ العلمین کیسے نہ کرتا۔ اللہ نے ان کو دنیا میں فتح، کامیابی عطا کی اور آخرت میں بےحساب انعامات کا وعدہ کیا ایسا وعدہ جو کبھی غلط نہیں ہوسکتا۔ یہ حالات صرف اسی زمانے کے ساتھ خاص نہیں بلکہ ایسے حالات ہر زمانہ میں ہر صورت مسلمانوں کو پیش آتے رہتے ہیں۔ پھر جو ثابت قدم رہتے ہیں اپنا سب کچھ اللہ اور رسول کی محبت میں قربان کردیتے ہیں ان کو قیامت کے دن پورے انصاف کے ساتھ بہترین انعامات جنت الفردوس کی شکل میں ضرور دیے جائیں گے۔ وہ زندگی ہمیشہ کی زندگی ہوگی۔ کیا یہ فائدے کا سودا نہیں کہ یہاں کی عارضی زندگی کو اللہ کے لیے قربان کر کے آخرت کے ہمیشہ کے بہترین انعامات حاصل کیے جائیں۔ آخر میں پکے مسلمان کی ایک نشانی اور بتائی کہ وہ لوگ اللہ کے پسندیدہ لوگ ہیں جو اللہ کی نعمتوں کا شکر زبان سے ادا کرتے رہتے ہیں اور اس کی دی گئی تمام نعمتوں کو انتہائی جائز اور مناسب طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔ اگر نیت صاف ہو تو دنیا کا ہر کام ہر قدم اور ہر سانس عبادت شمار ہوتا ہے۔ کس قدر رحیم و کریم اور قدر دان ہے ہمارا رب کہ صرف اس کی خوشنودی کو سامنے رکھ کر روزی کمائیں، بچے پیدا کریں، ان کی پرورش کریں، گھر کی صفائی کریں، برتن دھوئیں یا میاں کو خوش رکھیں سب کچھ عبادت میں شمار ہوجائے گا۔ صبح و شام اسی کی ہی تسبیح میں شمار ہوجائے گا۔ سبحان اللہ، اللہ کی رحمتیں، برکتیں اور مہربانیاں تمام لوگوں پر برابر ہوتی رہتی ہیں لیکن جیسا کہ تاریخ گواہ ہے کہ ناشکرے، بدنیت اور خراب لوگوں کو ضرور عذاب دے کر تباہ و برباد کردیا جاتا ہے اور آخرت میں بھی ان کو ہمیشہ رہنے والا درد ناک عذاب ضرور دیا جائے گا۔ یہعین حقیقت ہے، کیونکہ یہ بات قرآن پاک میں اللہ قادر مطلق بادشاہوں کے بادشاہ نے بار بار کہی ہے۔ جو ہرگز جھوٹ نہیں ہوسکتی۔ بیشک اللہ غفور ورحیم ہے۔ اگر غلطی سے گناہ ہوجائے تو سچی توبہ اس گناہ سے بخشش دلا سکتی ہے۔ مگر توبہ کی شرائط ( جو کئی بار بیان ہو چکیں) پوری ہونی چاہئیں۔ ورنہ توبہ بےکار ہے۔ بلکہ جب اللہ کی پکڑ ہوتی ہے تو بڑی سخت پکڑ ہوتی ہے کیونکہ وہ صرف غفور الرحیم ہی نہیں بلکہ عزیز ذوانتقام بھی ہے۔ ایک سچی اور پکی حقیقت اللہ تعالیٰ نے یہ بھی انسان کو بتائی ہے کہ خوراک کے اثرات انسان کی صحت پر تو پڑتے ہی ہیں انسان کے کردار پر حلال اور حرام خوراک کا اثر ضرور پڑتا ہے۔ اس کی تفصیلات بیان کی جا چکی ہیں۔ بہرحال سور کا گوشت اور شراب دونوں حرام ہیں جب کہ کفار و مشرکین یہ دونوں چیزیں کھاتے اور پیتے ہیں تو ان کی اخلاقی گراوٹ، یعنی بےحیائی، بدکرداری اور خاندانی انتشار صاف دکھائی دیتے ہیں۔ جب کہ مسلم معاشرہ فی الحال ان تمام اخلاقی برائیوں سے پاک صاف ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے بچوں اور جوانوں کو کفار کی رسومات، تمدن، لباس اور معاشرت سے ہر صورت بچا کر رکھیں کیونکہ اب ہر صورت یہ فرض ہر مسلمان پر عائد ہوتا ہے کہ نیکی کا حکم دے اور بدی سے منع کرے۔ پوری دنیا اس وقت مخرب الاخلاق ماحول کی زد میں آچکی ہے اس کے خلاف بڑے زبردست جہاد کی ضرورت ہے۔ جب آنحضرت ﷺ اسلام کا نام لے کر کھڑے ہوئے تو پوری دنیا کے خلاف لڑنے کے لیے اس وقت ان کے پاس صرف ایک طاقت تھی ” قرآن پاک “۔ جو کہ اب بھی ہمارے پاس صحیح و سلامت موجود ہے۔ اللہ کرے ہم اسے پڑھیں، سمجھیں اس پر عمل کریں اور بچے بچے تک اس کا بہترین پیغام پہنچائیں۔ آمین۔ دعا ” اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے ! آپ ہی میرے کار ساز ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، مجھے پوری فرمانبرداری کی حالت میں دنیا سے اٹھائیے اور مجھے خاص نیک بندوں میں شامل کردیجیے۔ “ (سورۃ یوسف آیت 101 )
Top