Mafhoom-ul-Quran - An-Nahl : 4
خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ
خَلَقَ : پیدا کیا اس نے الْاِنْسَانَ : انسان مِنْ : سے نُّطْفَةٍ : نطفہ فَاِذَا : پھر ناگہاں هُوَ : وہ خَصِيْمٌ : جھگڑا لو مُّبِيْنٌ : کھلا
اسی نے انسان کو نطفے سے بنایا مگر ( وہ اس خالق کے بارے میں) کھلم کھلا جھگڑنے لگا۔
انسان کی پیدائش اور اللہ کی دی ہوئی نعمتیں تشریح : ان آیات میں ایک بہت بڑا راز انسان کی پیدائش کا بتایا جا رہا ہے اس وقت جب یہ آیات نازل ہوئیں کون جانتا تھا کہ انسان کی پیدائش پانی کے اس قطرہ سے ہوتی ہے جو ماں کے رحم میں ڈالا جاتا ہے۔ یہاں انسان کی ابتدا نطفہ سے بتائی گئی ہے جو کہ سائنس کے طالب علم کے لیے بہت بڑا موضوع بن گیا اور آج سائنسدان ان تمام حقائق تک پہنچ گیا ہے جن کے بارے میں قرآن پاک نے آج سے کئی صدیاں پہلے وضاحت کردی ہے کہ انسان کو نطفہ سے بنایا۔ جب کہ سورة بقرہ میں ایک بہت بڑا راز حضرت آدم کی تخلیق کے قصہ میں بتادیا۔ کہ انسان کو ہم نے مٹی سے بنایا۔ اس ایک جملہ سے تمام سائنسدانوں کی تحقیقات کو مل یا میٹ کردیا جو انسان کی تخلیق کے راز کو معلوم کرنے کے لیے کبھی ڈارون (سائنسدان) کی تھیوری پر پریشان تھے کہ انسان کسی جانور کی شکل تبدیل ہونے سے بنا ہے اور وہ انسان کی ابتدا کو ارتقائی تھیوری میں گھما پھرا رہے تھے۔ جبکہ اللہ نے فرمایا ہم نے مٹی سے پتلا بنایا اس میں اپنی روح پھونک دی اور پھر آدم (علیہ السلام) کو زمین پر اتار دیا جہاں انسان کی تخلیق مرد و عورت کے ذریعے نطفے سے شروع کردی گئی۔ اب اس کو طبی لحاظ سے دیکھا جائے تو ڈاکٹر ہلوک نورباقی صاحب کچھ یوں لکھتے ہیں۔ ماں کے رحم کے اوپر والے حصے میں دائیں بائیں دو پتلی ٹیوبیں فلوپین ٹیوب یا بوٹرین ٹیوب ہوتی ہیں۔ پیڈو کی اطراف ان ٹیوبوں کے سرے پھولوں کی طرح کھلے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس طرح یہ اور ی یا بیضہ رحم کو گھیرے ہوئے ہوتے ہیں جیسے ہی بیضہ والا خلیہ یا او وم پیڈو کے گڑھے میں گرتا ہے تو ان ٹیوبوں کا منہ اسے پکڑ کر او وم کے اندر سمیٹ لیتے ہیں اور ٹیوب سے رحم کے دوسرے کنارے کی طرف سے داخل کردیتے ہیں۔ او وم یعنی بیضے والا خلیہ اسی ٹیوب میں ذرخیز پذیر ہوتا ہے۔ ایک مخصوص عرصہ کے بعد یہ ٹیوب کی لمبائی سے گزارا جاتا ہے اور رحم میں پہنچایا جاتا ہے رحم کے اندر لعابدار جھلی کی بالائی سطح باریک بالوں جیسی سطح سے مشابہت رکھتی ہے اسے ولی کہتے ہیں او وم یا بیضہ والے خلیے کے نکتہ نظر سے اس کی مثال جنگل میں درخت کے نیچے ایک خاص مقام سے دی جاسکتی ہے۔ رائیگوٹ خلیہ کے دو حصوں میں تقسیم در تقسیم کے عمل کو اسی ماحول میں جاری رکھتا ہے اور پھر غیر خلیاتی کیپسول میں ایک جینن یا حمل تشکیل پذیر ہوتا ہے، یعنی پستانیوں کے انڈے کے گرد منڈھی ہوئی جھلی کی صورت میں ہوتا ہے۔ اب یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہے کہ ابتدائی توقعات کے برعکس انسان کی ساخت ماں کے پیٹ میں کئی مرحلوں سے گزر کر پوری ہوتی ہے نہ کہ صرف ایک مرحلہ ہے۔ (از قرآنی آیات اور سائنسی حقائق) یہ سب لکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں اللہ کی بنائی ہوئی مخلوقات کس قدر پیچیدہ اور میزان کن طریقہ سے عمل میں آتی ہے کہ اس کو سمجھنے کے لیے ڈاکٹر حضرات زندگی کا ایک بہت بڑا حصہ انتہائی محنت میں گزارتے ہیں تو جا کر اللہ کے ان قواعد کا کچھ حصہ جان سکتے ہیں۔ جو اس نے خود انسان کو بنانے کے لیے بنا رکھے ہیں اور اسی طرح تمام مخلوقات کو اس نے مختلف طریقوں سے پیدا کر رکھا ہے۔ سبحان اللہ ! اللہ نے اس بےحد پرانے زمانے میں بڑے چھوٹے سے جملے میں بتا دیا کہ ” انسان نطفے سے بنایا گیا ہے۔ “ یہ اطلاع اس زمانے میں دی گئی جب انسان سفر کے لیے گھوڑے، خچر، اور گدھے استعمال کرتا تھا۔ ان کے علاوہ وہ کچھ ایسے جانور تھے مثلاً بھیڑ، بکری، اونٹ وغیرہ کہ ان کی کھال سے پوشاک بناتا اور اس کا گوشت کھا کر پیٹ بھرتا تھا۔ اگر یہ تمام چیزیں اللہ انسان کے لیے پیدا نہ کرتا تو انسان کو زندگی گزارنی کس قدر مشکل ہوجاتی۔ اس وقت کے بدئو وں کو سمجھانے کے لیے ان کے معیار کے مطابق قرآن نے بات کی کہ اس وقت عربوں کا معیار بھیڑ بکریوں کے گلّے تھے اور یہی ان کی شان اور برتری کا نشان تھے تو ان کو اپنی قدرت سمجھانے کے لیے ان کی عقل، معاشرت، تمدن اور زمانے کے مطابق بات کردی جبکہ نطفے کا ذکر کر کے بعد میں آنے والے علمائ، حکما اور دانشوروں کو سوچ بچار اور تحقیقات کا ایک بہت بڑا موضوع دے دیا اور ان کو اپنی قدرت اور طاقت کا پتہ اس بہت بڑے طبی نکتے سے بتا دیا۔ کیا حکمت ہے کیا جامعیت ہے اور کیا معقولیت ہے قرآن کے کلام میں ! کیوں نہ ہو یہ کلام اس قادر مطلق رحمن و رحیم کا کلام ہے آخر میں فرمایا ” اور وہ اور بھی چیزیں پیدا کرے گا جن کی تمہیں خبر نہیں۔ ، ، یہ ایک بڑا ہی لطیف اشارہ ہے بعد میں آنے والی سواریوں کی طرف۔ جو انسان نے اللہ کی دی ہوئی عقل اور اللہ کی دی ہوئی چیزوں کو استعمال کر کے اپنی پر آسائش سواریوں کے لیے تیار کیں۔ مثلاً بیل گاڑی، ریل گاڑی، موٹر کار، بحری جہاز اور پھر ہوائی جہاز یہ تو ہوئیں اب تک کی سواریاں آئندہ جو کچھ انسان بنانے والا ہے وہ انسان کے علم میں تو بعد میں آئے گا مگر اللہ کے علم میں وہ اس وقت سے ہے جب سے اس نے کائنات بنائی۔ قربان جائیں اللہ کے علم، قدرت اور خلاقی (پیدا کرنے) کے۔ بھلا اس خدائے واحد کا کون مقابلہ کرسکتا ہے اور کون اس کا شریک ہوسکتا ہے ؟ ہرگز کوئی اس کی ہوا تک کو نہیں پہنچ سکتا۔ اگلی آیات میں اللہ کی باقی کچھ عنایات کا ذکر کیا جا رہا ہے۔
Top