Mafhoom-ul-Quran - An-Nahl : 66
وَ اِنَّ لَكُمْ فِی الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةً١ؕ نُسْقِیْكُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْنِهٖ مِنْۢ بَیْنِ فَرْثٍ وَّ دَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَآئِغًا لِّلشّٰرِبِیْنَ
وَاِنَّ : اور بیشک لَكُمْ : تمہارے لیے فِي : میں الْاَنْعَامِ : چوپائے لَعِبْرَةً : البتہ عبرت نُسْقِيْكُمْ : ہم پلاتے ہیں تم کو مِّمَّا : اس سے جو فِيْ : میں بُطُوْنِهٖ : ان کے پیٹ (جمع) مِنْ : سے بَيْنِ : درمیان فَرْثٍ : گوبر وَّدَمٍ : اور خون لَّبَنًا : دودھ خَالِصًا : خالص سَآئِغًا : خوشگوار لِّلشّٰرِبِيْنَ : پینے والوں کے لیے
اور تمہارے لیے چارپایوں میں بھی نشان عبرت ہے کہ ان کے پیٹوں میں جو گوبر اور لہو ہے اس سے ہم تم کو خالص دودھ پلاتے ہیں۔ جو پینے والوں کے لیے خوشگوار ہے۔
دودھ ایک عظیم نعمت باری تعالیٰ تشریح : اس آیت میں اللہ کی طرف سے دی گئی ایک بہت بڑی نعمت کا ذکر ہے، یعنی دودھ۔ یہ اس قدر شفاف، فائدہ مند، غذائیت سے بھر پور، خوشبودار اور سفید ہوتا ہے کہ تمثیلاً کہا جاتا ہے دودھ کی طرح سفید۔ جب ہم غور کرتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ چوپائوں کے ذریعے انسان کے لیے مہیا کیا جاتا ہے۔ کیسی عجیب فیکٹری ہے دودھ بنانے کی۔ دودھ دینے والے جانوروں میں گائے، بھینس، اونٹ، بھیڑ، بکری، دنبہ، شامل ہیں۔ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ جانور جو کچھ کھاتا ہے اس سے اس کی اپنی غذا، اس کے بچے کی غذا اور پھر انسان کی غذا پیدا ہوتی ہے۔ وہی غذا جو وہ کھاتا ہے اس سے اس کے جسم کی طاقت اور نشوو نما کے لیے خون بنتا ہے، گوبر بنتا ہے اور پیشاب بنتا ہے۔ خون رگوں میں دودھ تھنوں میں اور گوبر پیشاب اپنے باہر نکلنے کے نظام کی طرف چلا جاتا ہے۔ سبحان اللہ ! کس قدر زبردست انتظام کیا گیا ہے جانور کی اندرونی کارکردگی کا۔ کہ دودھ جو ہم اس سے حاصل کرتے ہیں وہ پینے کی بہترین چیزوں میں سے ایک ہے۔ ایک ایسی جگہ تیار ہوتا ہے جہاں چارہ ہوتا ہے اور اس سے یہ تینوں چیزیں ایسے تیار ہوتی ہیں کہ ہر چیز بالکل علیحدہ علیحدہ اور خالص شکل میں انسان کو مل جاتی ہے دودھ بہترین غذا ہے اس میں نہ گوبر کی ملاوٹ ہوتی ہے نہ خون کا رنگ، مزہ اور بو ہوتی ہے۔ ہے نا یہ اللہ کا کمال اور بندوں پر اس کی بہترین عنایت۔ اب تھوڑا سا اس نظام کے بارے میں وضاحت کی جاتی ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ خوراک خون بناتی ہے جو فالتو پھوک رہ جاتا ہے اس کا گوبر اور پیشاب بن کر جسم سے خارج ہوجاتا ہے جبکہ خوراک کی پوری طاقت اپنے مکمل نظام کے تحت خون بن کر تمام جسم میں پھیل جاتی ہے جب بچہ ماں کے پیٹ میں نشوونما پانے لگتا ہے تو فوراً ہی دودھ بنانے والے گلینڈرز حرکت میں آجاتے ہیں جیسے جیسے بچہ پیدائش کے قریب آتا ہے تھنوں میں دودھ بنانے والے گلینڈرز کو خون کی سپلائی طاقت ور بنانے لگتی ہے بچے کی پیدائش کے بعد تھنوں میں دودھ پوری تیزی سے تیار ہونا شروع ہوجاتا ہے، پھر جیسے ہی بچہ تھنوں میں دودھ پینے کی پوری کوشش کرتا ہے دماغ سے فوراً ایک خاص گلینڈرز کو حکم ہوتا ہے جو آگے گلینڈرز کو دودھ بنانے کا حکم دیتا ہے یہ گلینڈرز تھنوں میں ہوتے ہیں اور یوں دودھ کی مشین فرافر دودھ بنانے لگتی ہے یہی طریقہ انسان کے ساتھ بھی ہے فرق صرف یہ ہے کہ جانور کا دودھ بڑی زیادہ مقدار میں ہوتا ہے کیونکہ اس کو انسان نے اپنی جسمانی طاقت بڑھانے کے لیے استعمال کرنا ہوتا ہے جبکہ انسان، یعنی عورت کے دودھ کی یہ نوعیت نہیں ہوتی بلکہ وہ صرف بچے کی نشوونما کے لیے دو سال تک پلایا جاسکتا ہے۔ کیا کہنا اللہ کی کاریگری کا اسی لیے تو موجودہ سائنس دان اب بڑی تیزی سے رب کی طرف آرہے ہیں۔ یہ تو تھی دودھ کی نعمت اگلی آیات میں کچھ اور نعمتوں کا ذکر ہے۔ ملاحظہ ہو :
Top