Mafhoom-ul-Quran - Al-Israa : 13
وَ كُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ طٰٓئِرَهٗ فِیْ عُنُقِهٖ١ؕ وَ نُخْرِجُ لَهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ كِتٰبًا یَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا
وَ : اور كُلَّ اِنْسَانٍ : ہر انسان اَلْزَمْنٰهُ : اس کو لگا دی (لٹکا دی) طٰٓئِرَهٗ : اس کی قسمت فِيْ عُنُقِهٖ : اس کی گردن میں وَنُخْرِجُ : اور ہم نکالیں گے لَهٗ : اس کے لیے يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت كِتٰبًا : ایک کتاب يَّلْقٰىهُ : اور اسے پائے گا مَنْشُوْرًا : کھلا ہوا
ہم نے ہر انسان کا عمل اس کے گلے میں لٹکا رکھا ہے اور قیامت کے دن ہم اس کے لیے ایک کتاب نکالیں گے جسے وہ (اپنے سامنے) کھلا ہوا پائے گا۔
اعمال نامہ اور قیامت کا دن تشریح : ان آیات میں اس سائنسی نکتہ کو بڑے ہی عام الفاظ میں بیان کردیا گیا ہے کہ ہمارے کائناتی نظام میں اس قدر مضبوط اور معقول نظام ریکارڈنگ اور فلم کا رکھا ہوا ہے کہ ہر شخص اس نظام کے احاطہ کے اندر ہے۔ ہر شخص کی کہی ہوئی بات کیا ہوا عمل اور نیت سب کچھ ایک خود کار عمل کے ذریعے ایسے ہی تیار ہو رہا ہے، جیسے کہ انسان کے اعمال کی تختی ہر وقت اس کے گلے میں لٹک رہی ہو۔ اور پھر وہ تختی اللہ کی اتنی سخت حفاظت میں جمع ہوجاتی ہے کہ قیامت کے دن وہ اپنے اعمال کی تختی خود دیکھ لے گا۔ یہ اس لیے کہ اللہ نے رسول بھیج دیے جس شخص نے اپنی عقل، فہم اور ارادہ سے نیک راہ اختیار کی اور خلوص نیت سے نیک زندگی گزاری یا جس نے گمراہی اختیار کی تو اس کی سزا و جزا میں ہرگز بےانصافی نہ ہوگی بلکہ اپنے ہی اعمال کا ٹھیک ٹھیک بدلہ ملے گا اسی لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر نیکی کرتے ہو تو اپنے لیے برائی کرو گے تو اپنے لیے اعمال میں اور سزا و جزا میں کوئی کسی کا ذمہ دار ہرگز نہیں ہوسکتا۔ مسلمان تو خیر اس پر ایمان رکھتا ہے مگر جدید سائنسی تحقیقات نے بھی اس حقیقت کو ثابت کردیا ہے کہ ہر چیز خواہ اندھیرے میں ہو یا اجالے میں، ساکن ہو یا حرکت میں ہو اپنے اندر سے ایک حرارت نکالتی رہتی ہے۔ ان حرارتی لہروں سے اس کی مکمل تصویر تیار ہوتی رہتی ہے۔ جس طرح آواز کی لہریں زبان سے نکلی ہوئی تھرتھراہٹ سے بات کو محفوظ کرلیتی ہیں۔ یہ ایک لمبا موضوع ہے۔ مختصراً یہ ہے کہ آجکل جو کیمرے انفرارڈ شعاعوں سے کام میں آرہے ہیں وہ یہی کام دکھا رہے ہیں۔ سائنس بتاتی ہے کہ ہمارے اعمال اندھیرے میں کیے گئے ہوں یا اجالے میں ہوں، چھپ کر ہوں یا ظاہراً کیے گئے ہوں سب فضا میں فلم کی صورت میں موجود رہتے ہیں۔ جن کو جمع کر کے کسی بھی شخص کی پوری زندگی کی فلم تیار مل سکتی ہے۔ اسی لیے اللہ علیم وخبیر فرماتا ہے : ” اور پھر قیامت کے دن ہم اس کے لیے ایک کتاب نکالیں گے جسے وہ کھلا ہوا پائے گا۔ “ ( سورة بنی اسرائیل آیت :13) قرآن کس قدر سچی اور حقیقت سے بھری ہوئی کتاب ہے ! اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے اسے انسانوں کے لیے رحمت کہا ہے۔ مگر یہاں عمل اور ارادہ کی خود مختاری دے کر انسان کو حیوان سے ممتاز کردیا گیا ہے اور یہی انسان کے لیے مشکل ترین کام ہے۔ ڈاکٹر علامہ اقبال فرماتے ہیں ؎ تقدیر کے پابند نباتات و جمادات مومن فقط احکام الٰہی کا ہے پابند
Top