بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mafhoom-ul-Quran - Al-Kahf : 1
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلٰى عَبْدِهِ الْكِتٰبَ وَ لَمْ یَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًاؕٚ
اَلْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کیلئے الَّذِيْٓ : وہ جس نے اَنْزَلَ : نازل کی عَلٰي عَبْدِهِ : اپنے بندہ پر الْكِتٰبَ : کتاب (قرآن) وَلَمْ يَجْعَلْ : اور نہ رکھی لَّهٗ : اس میں عِوَجًا : کوئی کجی
سب تعریف اللہ ہی کی ہے جس نے اپنے بندے (محمد ﷺ پر یہ کتاب نازل کی اور اس میں کسی طرح کی کجی اور پیچیدگی نہ رکھی۔
قرآن کی شان اور غلط اعتقاد تشریح : قرآن پاک اور اس کے نازل کرنے والے کی تعریف اور جس پر نازل کی گئی ان سب کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحب لکھتے ہیں : نزول قرآن کا اصل مقصد نفس انسانی کی تہذیب، باطل عقائد (جھوٹے عقیدے) اور فاسد اعمال (برے کام) کی تردید ہے قرآنی نقطہ نظر سے حیات ایک وحدت ہے۔ اس لیے تعلیمات قرآنی جسم و روح کے تمام تقاضوں پر محیط (گھیرے ہوئے) ہے۔ تمام کائنات میں خدائی قانون (اللہ کے قانون) کی بالا دستی ایک بنیادی حقیقت ہے اور اس کا اطلاق (جاری ہونا) تمام انسانوں پر رتبہ، قوت، رنگ، زبان اور جغرافیائی تفریق کے باوجود یکساں طور پر ہوتا ہے۔ (از الفوز الکبیر) شاہ صاحب نے بڑی ہی خوبصورت وضاحت کی ہے، جس پر یہ قرآن نازل ہوا، یعنی مقبول الٰہی، محسن انسانیت اور آخری نبی، یعنی نبی آخر الزمان۔ کسی صحابی نے آپ کے اخلاق کے بارے میں حضرت عائشہ ﷺ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا : ” آپ کا اخلاق تو قرآن ہی ہے۔ “ (مسند امام احمد) یہ دونوں چیزیں کس قدر بڑی اور فائدہ مند نعمتیں ہیں جو رب ذوالجلال، مالک و خالق کائنات نے انسانوں کو عطا کی ہیں یہ الہ العٰلمین ہمیں دکھائی نہیں دیتا، اس کا مقام اور رتبہ اس قدر بلند ہے کہ ہماری آنکھ ان کو ہرگز دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتی تو پھر ہم اللہ کا تصور کس طرح کرسکتے ہیں۔ وہ اس طرح کرسکتے ہیں کہ جب ہم اپنے جسم کی بناوٹ پر غور کریں اور پھر چاروں طرف کائنات پر نظر دوڑائیں تو ہم دیکھتے ہیں ہمارے جسم کی بناوٹ کس قدر عجیب ہے اور پوری کائنات کس قدر حسین ہے۔ دریا، ہوائیں، پہاڑ، گھٹائیں، سمندر، پھل، پھول اور تمام مخلوقات یہ سب اگر ہمیں اللہ کی پہچان نہیں کروا سکے تو پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ پھر ہم نہ مسلمان ہیں اور نہ ہی مرنے کے بعد جنت کے حق دار ہو سکیں گے۔ اس جنت میں جانا اور پھر اس میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہنے کا وعدہ بھی اللہ نے کیا ہے۔ مگر ان لوگوں کے لیے بھی بڑی بری خبر ہے جو اللہ کو نہیں مانتے یا یہ کہتے ہیں کہ ” اللہ نے بیٹا بنا لیا ہے۔ “ یہ اشارہ یہود و نصاریٰ کی طرف ہے۔ کیونکہ انہوں نے اپنے رسولوں کی تعلیمات کو بدل کر کسی نے تین خدا بنا لیے اور کسی نے اپنے نبی کو اللہ کا بیٹا بنا دیا۔ اور پھر اس غلط بات پر اس قدر سختی سے پابند ہوگئے کہ یہ انتہائی غلط اور جھوٹ بات نسل در نسل ان میں چلتی چلی آرہی ہے۔ یہ بہت بڑا جھوٹ اور شرک ہے اور شرک بہت بڑا ظلم ہے جو یہ لوگ اپنے اوپر کر رہے ہیں۔ جب کہ قرآن پاک میں صاف صاف بتا دیا گیا ہے۔ اللہ نے فرمایا : ” بھلا وہ کون ہے جو تخلیق کا آغاز کرتا ہے اور پھر اسے دہراتا ہے ؟ وہ کون ہے جو زمین و آسمان سے تمہیں رزق پہنچاتا ہے ؟ کیا اللہ کے سوا اور خدا بھی ہیں ؟ انہیں کہیے کہ اگر سچے ہو تو دلیل پیش کرو۔ “ (سورۃ النمل آیت 64 ) یہ تو بڑی عام سی بات ہے کہ اللہ تو ایک ہی ہے اگر دو یا چار اللہ ہوتے تو ضرور ان میں لڑائی ہوتی اور جب لڑائی ہوتی تو یہ نظام کائنات اس قدر مناسب اور ایک ہی طریقہ پر یوں ہمیشہ نہ چلتا رہتا۔ اور اللہ کی سلطنت یوں قائم و دائم نہ رہتی کچھ نہ کچھ کھلبلی تو ضرورپیدا ہوتی۔ اس بارے میں اللہ تعالیٰ یوں فرماتا ہے۔ ” تم اللہ رحمن کی صفت کے اندر کوئی کسر نہ پا سکو گے، اپنی نگاہ دوڑائو، کیا پاتے ہو کوئی رخنہ ؟ پھر بار بار نظر دوڑائو، تمہاری نگاہ تھک کر پلٹ آئے گی مگر کوئی رخنہ نہ پا سکے گی۔ “ (سورۃ الملک آیت : 4-3 ) پھر فرمایا ” بیشک اس کے اندر یاد دہانی ہے، اس کے لیے جس کے پاس بیدار دل ہو، یا وہ پوری طرح متوجہ ہو کر بات سنے۔ ( سورة ق آیت : 37 ) جو لوگ اللہ سے انکار کرتے ہیں یا اللہ کے ساتھ کسی کو اس کا شریک بناتے ہیں یہ سمجھ تو رکھتے ہیں کہ یہ غلط بات ہے مگر مانتے نہیں۔
Top