Mafhoom-ul-Quran - Al-Kahf : 75
قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكَ اِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا
قَالَ : اس نے کہا اَ لَمْ : کیا نہیں اَقُلْ : میں نے کہا لَّكَ : تجھ سے اِنَّكَ : بیشک تو لَنْ تَسْتَطِيْعَ : ہرگز نہ کرسکے گا مَعِيَ : میرے ساتھ صَبْرًا : صبر
اس نے کہا کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ تم سے میرے ساتھ صبر نہ ہو سکے گا ؟
قَالَ اَلَمْ (پارہ نمبر 16) سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) اور سیدنا خضر (علیہ السلام) کی جدائی تشریح : اس واقعہ کا پس منظر یہ ہے کہ کسی اجتماع میں سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کو کسی نے پوچھا کہ کیا آپ سے زیادہ کوئی دوسرا شخص عالم فاضل نہیں ہوسکتا ؟ تو آپ نے سادگی یا لاعلمی میں کہہ دیا کہ ہاں مجھ سے زیادہ کوئی اور علم نہیں رکھتا۔ تو اللہ کو یہ ناگوار گزرا، اس لیے آپ کو خضر (علیہ السلام) کے پاس بھیج دیا تاکہ آپ کو معلوم ہوجائے کہ آپ سے زیادہ علم رکھنے والا بھی موجود ہے اور پھر سب سے بڑا علیم و حکیم تو صرف اللہ تعالیٰ ہے وہ جس کو جتنا علم دینا چاہے دے دیتا ہے اس میں کسی شخص کا اپنا کوئی کمال نہیں۔ اسی لیے اللہ نے سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ دو دریائوں کے سنگم پر جائیں تو وہاں ان کو ایک شخص ملے گا جو ان سے بھی زیادہ علم والا ہے۔ اس شخص کا نام قرآن پاک میں نہیں بتایا گیا احادیث میں ان کا نام سیدنا خضر (علیہ السلام) بتایا گیا ہے۔ یہ عبادت اور تقویٰ میں بہت درجہ رکھتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندے تھے۔ قرائن اور شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا خضر (علیہ السلام) اللہ کے نبی تھے کیونکہ ان کا یہ بات فرمانا کہ ” وَمَا فَعَلْتُہٗ عَنْ اَمْرِ رَبِّیْ “ کہ میں نے اسے اپنی طرف سے نہیں کیا۔ “ (الکہف) یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ تمام کام انہوں نے اللہ تعالیٰ کی مرضی سے کیے ہیں اور براہ راست اللہ کی طرف ایسی بات اللہ کا نبی ہی کرسکتا ہے۔ یہاں کشتی میں سوراخ کا مطلب یہ تھا کہ اللہ کی رضا پر راضی رہنا چاہیے کیونکہ بعض اوقات ایک مصیبت آتی ہے تو وہ ایک دوسری بڑی مصیبت کا علاج ہوتی ہے۔ لڑکے کا قتل یہ بتا رہا ہے کہ صبر کا پھل بڑا میٹھا ہوتا ہے۔ نیک والدین کو بری اولاد سے بچا کر نیک، مخلص اور فرمانبردار اولاد عطا ہونے کی خوشخبری سنادی۔ تیسرے واقعے میں کسی کی نیکی کا لحاظ کرتے ہوئے اس کی نیک کمائی اس کی نیک اولاد تک پہنچانے کا بندوبست کردیا کہ دفن شدہ خزانے کی نشاندہی کے لیے اس گرتی ہوئی دیوار کو مضبوط کروا دیا تاکہ خزانہ مستحقین تک پہنچ سکے اس وقت جب وہ بالغ ہوجائیں۔
Top