Mafhoom-ul-Quran - Al-Kahf : 83
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنْ ذِی الْقَرْنَیْنِ١ؕ قُلْ سَاَتْلُوْا عَلَیْكُمْ مِّنْهُ ذِكْرًاؕ
وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور آپ سے پوچھتے ہیں عَنْ : سے (بابت) ذِي الْقَرْنَيْنِ : ذوالقرنین قُلْ : فرمادیں سَاَتْلُوْا : ابھی پڑھتا ہوں عَلَيْكُمْ : تم پر۔ سامنے مِّنْهُ : اس سے۔ کا ذِكْرًا : کچھ حال
اور آپ سے ذوالقرنین کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہہ دو کہ میں اس کا کسی قدر حال تمہیں پڑھ کر سناتا ہوں۔
نقشہ بسلسلہ قصہ ذوالقرنین ذوالقرنین کا واقعہ تشریح : قرآن پاک کے بیان کے مطابق ذوالقرنین کی تمام علامات خورس میں پائی جاتی ہیں۔ مگر کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نام کی وضاحت نہیں کی، اس لیے یہ صرف اندازہ ہی ہے کہ نزول قرآن سے پہلے جس قدر فاتحین گزرے ہیں ان سب کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی بتائی ہوئی تمام نشانیاں خورس میں پائی جاتی ہیں۔ خورس ایک ایرانی بادشاہ تھا جس کا عروج 549 قبل مسیح سے شروع ہوتا ہے۔ اس نے بڑے کم عرصہ میں میڈیا (الجبال) اور لیڈیا (ایشیائے کوچک) کو فتح کرلیا اور پھر بابل کو فتح کرنے کے بعد اس کی فتوحات کا سلسلہ سندھ اور ترکستان سے لے کر ایک طرف مصر اور لیبیا تک اور دوسری طرف تھریس اور مقدونیہ تک وسیع ہوگیا۔ شمال میں کا کیشیا اور خوارزم تک پھیل گئی۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت کی پوری مہذب دنیا کو اس نے فتح کرلیا تھا۔ کیونکہ غروب آفتاب کی جو کیفیت قرآن میں بیان کی گئی ہے کہ سورج سیاہی مائل گدلے پانی میں ڈوب رہا ہے۔ اندازہ ہے کہ اس سے مراد ایشیائے کوچک کا مغربی ساحل ہے جہاں بحرایجین چھوٹی چھوٹی خلیجوں کی شکل میں موجود ہے۔ اس کا امکان یوں بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے لیے قرآن میں بحر (سمندر) کی بجائے عین (جھیل) یا خلیج کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ یہ سب تفہیم القرآن تفسیر کی مدد سے اخذ کیا گیا ہے۔ ورنہ قرآن پاک میں صرف ذوالقرنین ہی کہا گیا ہے۔ جس کا مطلب ہے دو سینگوں والا یا دو زلفوں والا۔ یہ لقب ہے نام نہیں بتایا گیا۔ اس قصہ کا ذکر کفار مکہ کے ان تین سوالوں کے جواب میں تیسرا جواب ہے جو انہوں نے آپ ﷺ کا امتحان لینے کے لیے آپ سے کیے تھے۔ سورة کہف میں انہی تین سوالوں کا جواب دیا گیا ہے۔ ذوالقرنین کے بارے میں بڑی وضاحت سے بتایا گیا ہے کہ وہ صرف ایک فاتح ہی نہ تھا بلکہ پکا مسلمان تھا کیونکہ وہ توحید اور آخرت پر مکمل ایمان رکھتا تھا۔ اس نے تین سفر کیے جن کا ذکر ہوچکا مشرق کی طرف، مغرب کی طرف اور پھر کا کیشیا کے شمال میں بحر خزر کے قریب یا جوج اور ماجوج سے بچائو کے لیے مضبوط سیسہ پلائی دیوار بنائی اتنا کچھ کرنے کے باوجود وہ اتنہائی منکسرالمزاج تھا۔ جب اس نے کہا کہ بیشک یہ دیوار انتہائی مضبوط ہے مگر لازوال نہیں۔ جب تک اللہ کی مرضی ہے، یہ قائم رہے گی۔ اور جب ” وعدے کا وقت “ آئے گا تو پارہ پارہ ہوجائے گی۔ یعنی وہ فتح و کامیابی کے نشے میں قیامت اور روز آخر کو بھولا ہوا نہیں تھا۔ وہ نیک دل، رحم دل، فیاض، عادل، محنتی اور اپنی رعایا سے محبت کرنے والا اور اللہ پر بھروسہ کرنے والا جنگ جو بادشاہ تھا۔ اس میں غرور، لاپرواہی، تن آسانی، حرص اور لالچ کا نام و نشان نہ تھا۔ بلکہ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں، برکتوں اور فضل و کرم کو وہ اللہ کے لیے خرچ کرتا تھا اور اللہ کا شکر گزار بندہ تھا۔ اس نے کہا کہ ” یہ میرے رب کی مہربانی ہے جب میرے رب کا وعدہ آپہنچے گا (قیامت) تو اس کو گرا کر ہموار کر دے گا اور میرے رب کا وعدہ سچا ہے۔ ، ، ( سورة ٔ کہف آیت :98 ) کس قدر خوبصورت کردار کا نقشہ پیش کیا گیا ہے۔ ہمارے رہنما ہمارے لیڈر اور ہمارے سربراہ مسلمان ہیں دعا ہے کہ الہ العلمین آج کے حکمرانوں کے کردار، مزاج اور اخلاق و کارکردگی ذوالقرنین جیسی بنا دے۔ آمین۔
Top