Mafhoom-ul-Quran - Maryam : 16
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مَرْیَمَ١ۘ اِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ اَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِیًّاۙ
وَاذْكُرْ : اور ذکر کرو فِى الْكِتٰبِ : کتاب میں مَرْيَمَ : مریم اِذِ انْتَبَذَتْ : جب وہ یکسو ہوگئی مِنْ اَهْلِهَا : اپنے گھروالوں سے مَكَانًا : مکان شَرْقِيًّا : مشرقی
اور کتاب (قرآن) میں مریم کا ذکر کرو جب وہ اپنے لوگوں سے الگ ہو کر مشرقی جانب چلی گئیں۔
سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش اور بچپن کی گفتگو تشریح : سیدہ مریم کا پورا واقعہ سورة آل عمران میں بڑی وضاحت سے گزر چکا ہے کہ آپ کی والدہ نے آپ کو بیت المقدس میں عبادت کے لیے بٹھا دیا تھا۔ یہ محراب شرقی حصہ میں واقعہ تھی، جہاں آپ نے ایک پردہ ڈال کر اپنے آپ کو لوگوں کی نظروں سے چھپا رکھا تھا۔ سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) کے ساتھ ہی سیدہ مریم (علیہا السلام) کا ذکر کیا گیا ہے۔ سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) کی پیدائش بھی اللہ کی قدرت کی کامل نشانی ہے اور سیدنا مریم (علیہا السلام) کا انتہائی پاکدامن اور نیک ہونے کے باوجود بغیر کسی مرد کے ملے (نکاح وغیرہ) بیٹا پیدا کرنا بھی اللہ کی بہت بڑی نشانیوں میں سے ایک ہے اللہ رحمن و رحیم کی قدرتیں، حکمتیں اور طاقتیں انسانی عقل سے باہر ہیں۔ اس نے بغیر ماں باپ کے آدم کو پیدا کیا بغیر ماں کے حوا کو پیدا کیا اور پھر بڑھاپے میں بانجھ ہونے والی ماں کو یحییٰ عطا کیا اور پھر اسی طرح سیدہ مریم (علیہا السلام) کو بغیر باپ کے اپنی قدرت سے پاکیزہ بیٹا عیسیٰ (علیہ السلام) عطا کیا جس نے اللہ کی قدرت سے ماں کی بےگناہی، پاکیزگی اور پاکدامنی کا اعلان جھولے میں لیٹے ہوئے اپنی زبان سے کیا۔ یہ ایک بہت بڑا اعلیٰ درجہ کا سائنسی معجزہ ہے جو قرآن پاک میں سورة مریم میں بیان کیا گیا ہے۔ اس معجزہ پر تمام سائنسدان دن رات محنت کر رہے ہیں کہ بغیر باپ کے یعنی جنس مخالف کے بغیر بچہ کی پیدائش ہو سکے۔ اس سے ایک مسئلہ تو حل ہوگیا، یعنی جو لوگ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا کہتے ہیں وہ کم ازکم اس کفریہ یقین سے تو ہٹ گئے ہیں ڈاکٹر نور ہلوک باقی صاحب اپنی کتاب میں یوں لکھتے ہیں : ” سیدہ مریم (علیہا السلام) کی طرف سیدنا جبرائیل (علیہ السلام) کا ایک اشعاع Irradiation یا ان پر کسی مقناطیسی ذریعہ سے اثر انداز ہونا اس حقیقت کا ایک بیان ہے۔ ورنہ تو رب جلیل کا ارشاد اس طرح ہوتا کہ ” ہم نے یہ خواہش کی اور عیسیٰ کو مریم کے پیٹ میں پیدا کردیا۔ “ اللہ کی طرف سے جبرائیل کو بیچ میں پڑنے والا واسطہ بنانے کا اعلان، اس حیاتیاتی حقیقت پر زور دیتا ہے کہ خالق مطلق کی بلاواسطہ اور خاص قسم کی دخل اندازی کی ہی ضرورت ہوتی ہے کہ تخم مادہ (او وم) اپنا کوڈ خود ہی کھول دے، اور دوبارہ پیداوار کے عمل کے ذریعے ایک نئے انسان کو وجود میں لے آئے۔ “ مزید لکھتے ہیں ” یہ ایک عظیم اور نازک ترین دانائی کی وجہ سے ہے۔ کہ اگرچہ ماں کا تخم خود اپنے تئیں ایک بچہ تشکیل دینے کی اہلیت رکھتا ہے مگر اس کو اس خاص اہلیت کے استعمال کی اجازت نہیں ہوتی۔ چناچہ اصل معجزہ بغیر باپ کے حمل ہوجانا نہیں ہے بلکہ یہ مجبوری ہے کہ بچہ باپ کے ذریعہ ہی پیدا ہو۔ مگر اس کے لیے خالق مطلق کی بلا واسطہ اور خاص قسم کی دخل اندازی ہی کی ضرورت ہوتی ہے کہ تخم مادہ (او وم) اپنا کوڈ خود ہی کھول دے اور دوبارہ پیداوار کے عمل کے ذریعے ایک نئے انسان کو وجود میں لے آئے۔ “ (قرآنی آیات اور سائنسی حقائق) جبرائیل (علیہ السلام) جو اللہ کی طرف سے اہم کام کرنے پر معمور ہیں۔ جب سیدہ مریم (علیہا السلام) کے پاس نیک بیٹے کی خوشخبری لے کر انسان کی شکل میں آئے تو انہوں نے انتہائی مختصر بات کرتے ہوئے اللہ کی پناہ چاہی۔ تو یہاں یہ سبق ملتا ہے کہ اگر بحالت مجبوری کسی غیر مرد سے بات کرنی پڑجائے تو تمام حدود کا خیال رکھتے ہوئے بڑے ہی پروقار طریقہ سے بات مختصر کرنی چاہیے تاکہ شیطان کا حملہ نہ ہو اور کوئی بھی بدخیالی انسان پر طاری نہ ہو۔ اللہ کا خوف دل میں ہر وقت رکھنا چاہیے۔ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کا واقعہ تاریخ کا ایک اہم ترین واقعہ ہے۔ سیدہ مریم (علیہا السلام) پیدائش کے وقت بیت اللحم چلی گئیں جہاں سوائے اللہ کے ان کا کوئی مددگار نہ تھا تو اللہ نے ان کے لیے پکی ہوئی کھجوریں مہیا کردیں اور پانی کا چشمہ نکال دیا۔ اور پھر فرمایا کہ ” درخت کے تنے کو ہلائو پکی ہوئی کھجوریں تمہارے اوپر گریں گی۔ “ خشک تنے سے ترو تازہ کھجوریں بھی ایک عجیب معجزہ تھا یعنی جو کام ان کے بس میں تھا کرنے کو کہا گیا۔ اور باقی سب کام اللہ نے اپنی قدرت سے ان کے لیے آسان کردیے اور ان کو ایک ایسا نیک اور متقی بیٹا عطا کیا کہ جو جلیل القدر نبی کی صورت میں تا قیامت یاد کیا جاتا رہے گا۔ اور ان دونوں ماں اور بیٹے پر اللہ کی طرف سے بڑی ہی خاص رحمتیں اور برکتیں نازل کی گئیں اور کی جاتی رہیں گی۔ جیسا کہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا جب کہ وہ ابھی چند دن کے بچے تھے۔ ” فرمایا جس دن میں پیدا ہوا، جس دن مروں گا اور جس دن زندہ کر کے اٹھایا جاؤں گا مجھ پر سلام اور رحمت ہے۔ “ (آیت 33 : سورة مریم) ایسے ہی الفاظ سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) کے لیے بھی آئے ہیں۔ سیدہ مریم بی بی جس ثابت قدمی سے اس انتہائی سخت آزمائش میں پوری اتریں اس کی مثال نہیں ملتی۔ آپ نے اللہ کے حکم کے آگے سر جھکا دیا اور پھر اللہ کی رحمتوں کی خود بھی حق دار بنیں اور آپ کے بیٹے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) نبوت کے درجہ کے حق دار بنے۔ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی اس طرح پیدائش میں یہ حکمت ہے کہ لوگ ان کی پیدائش دیکھ کر اللہ کی قدرت کا ٹھیک اندازہ کرلیں اور خود وہ لڑکا اللہ کی طرف سے دنیا کے لیے رحمت ثابت ہو۔ تو یہی وہ سیدنا عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) ہے جس کے بارے میں ہم نے سچی حقیقت بیان کردی جس میں یہ لوگ جھگڑتے ہیں۔ “ کوئی ان کو اللہ کا بیٹا کہتے ہیں اور کوئی سیدہ مریم (علیہا السلام) کی شادی کا ذکر کرتے ہیں۔ اور یہ دونوں باتیں غلط ہیں سچی بات وہ ہے جو اللہ نے قرآن میں بتا دی ہے۔
Top