Mafhoom-ul-Quran - Maryam : 54
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ١٘ اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاۚ
وَاذْكُرْ : اور یاد کرو فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں اِسْمٰعِيْلَ : اسمعیل اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھے صَادِقَ الْوَعْدِ : وعدہ کا سچا وَكَانَ : اور تھے رَسُوْلًا : رسول نَّبِيًّا : نبی
اور کتاب میں اسمعٰیل کا ذکر بھی کرو کہ وہ وعدے کے سچے اور ہمارے بھیجے ہوئے نبی تھے۔
مختلف انبیاء کا مختصر ذکر تشریح : سیدنا اسحق، سیدنا موسیٰ ، سیدنا ہارون اور سیدنا اسمعٰیل (علیہم السلام) کا ذکر بڑے پیارے انداز میں کیا گیا ہے۔ یہ سب انبیاء بڑے ہی نیک، مستقل مزاج اور مقبول الٰہی بندے تھے ان میں سے ایک اسماعیل (علیہ السلام) تھے۔ اللہ نے ان کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے ” اور بیشک وہ وعدے کے سچے اور ہمارے نبی تھے ! اور اپنے گھر والوں کو نمازو زکوٰۃ کا حکم دیا کرتے تھے اور وہ اپنے رب کے پسندیدہ تھے۔ “ سیدنا ادریس (علیہ السلام) کا زمانہ سیدنا آدم (علیہ السلام) اور سیدنا نوح (علیہ السلام) کے درمیان کا زمانہ تھا۔ آپ کو بھی رب العزت نے ایک خاص مقام دیا تھا آپ بڑے سچے متقی اور علوم و فنون میں بڑا اونچا درجہ رکھتے تھے۔ یہ سب ایسے اچھے اور بہترین انسان تھے کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے ہر طرح سے اپنے فضل و کرم سے مالا مال کر رکھا تھا۔ یہ لوگ وعدے کے سچے اور نماز و زکوٰۃ پر سختی سے پابندی کرنے والے اور رشد و ہدایت کی تلقین کرنے والے متقی لوگ تھے۔ یہ تمام لوگ سیدنا آدم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے چنے ہوئے خاص لوگ تھے اور یہ لوگ ان برگزیدہ لوگوں کی نسل میں سے تھے جن کو طوفان نوح سے بچانے کے لیے کشتی میں سوار کروا دیا گیا تھا۔ ان لوگوں میں اللہ کا خوف اور انکساری اس قدر موجود ہے کہ جب بھی ان کے سامنے اللہ کی نازل کردہ آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ عجزو انکسار سے سجدے میں گر پڑتے ہیں اور زارو قطار روتے ہیں یہ سب اللہ کے خوف اور اس کی بندگی کا نشان ہے۔ یہ آیت 58 سورة سجدہ کی آیت ہے یعنی جو بھی کوئی اسے پڑھے یا سنے سجدہ ادا کرے۔ مطلب یہ ہے کہ عاجزی و انکساری انسان کی بہت بڑی صفت ہے۔ کسی بھی صورت سے چاہے مالی ہو، روحانی ہو عزت و وقار کا معاملہ ہو کبھی بھی غرور نہیں کرنا چاہیے۔ غرورو تکبر اور اللہ سے دوری، غفلت کسی صورت میں اللہ رب العزت کو پسند نہیں۔
Top