Mafhoom-ul-Quran - Maryam : 73
وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا١ۙ اَیُّ الْفَرِیْقَیْنِ خَیْرٌ مَّقَامًا وَّ اَحْسَنُ نَدِیًّا
وَاِذَا : اور جب تُتْلٰى : پڑھی جاتی ہیں عَلَيْهِمْ : ان پر اٰيٰتُنَا : ہماری آیتیں بَيِّنٰتٍ : واضح قَالَ : کہتے ہیں الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا لِلَّذِيْنَ : ان سے جو اٰمَنُوْٓا : وہ ایمان لائے اَيُّ : کون سا الْفَرِيْقَيْنِ : دونوں فریق خَيْرٌ مَّقَامًا : بہتر مقام وَّاَحْسَنُ : اور اچھی نَدِيًّا : مجلس
اور جب ان لوگوں کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو جو کافر ہیں وہ مومنوں سے کہتے ہیں کہ دونوں فریق میں سے مکان کس کے اچھے اور مجلسیں کس کی بہتر ہیں۔
غلط لوگوں کی اچھی امیدیں باندھنا تشریح : ان آیات میں فخر و غرور کا ذکر کیا گیا ہے۔ اللہ رب العلمین ہے، رازق ہے، وہ ہر کسی کو چاہے کوئی مومن ہو چاہے کافر سب کو رزق دیتا ہے اور رزق تقسیم کرنے کا اس کا اپنا ہی انداز ہے۔ جس میں بیشمار حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ رزق، مال اور اولاد صرف فخر کرنے کی چیز نہیں بلکہ شکر کرنے کی چیز ہے۔ اور یہ دنیا میں بڑی آزمائش کی چیزیں ہیں۔ سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے۔ “ (صحیح مسلم) سیدنا سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” اگر دنیا کی وقعت اللہ کے ہاں ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نہ پلاتا۔ (جامع ترمذی) کفر و شرک تو خیر ہیں ہی ناقابل معافی گناہ یہاں دنیا میں ان کو بڑی مہلت دی جاتی ہے تاکہ ان کو توبہ کرنے، غور کرنے اور ایمان کو سمجھنے اور قبول کرنے کا خوب موقعہ مل جائے کیونکہ قیامت اور یوم الحساب میں تو پھر سوائے پچھتاوے کے اور کچھ نہ ہوگا اور پھر وہاں ان کو یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ فائدے میں کون تھا اور نقصان میں کون رہا۔ اللہ تعالیٰ نے صاف صاف بتا دیا ہے کہ اللہ کے ہاں اگر کوئی چیز عزت کا باعث ہے تو وہ صرف اور صرف تقویٰ ہے۔ اللہ پاک کا کلام سن کر اور اس کی بیشمار نشانیاں دیکھ کر جو لوگ ایمان نہیں لاتے وہ آخرت میں اپنا علیحدہ علیحدہ حساب ضرور دیں گے۔ یہ سب قرآن کی برکات ہیں کہ جو ہمیں ہر صورت خبردار کر رہا ہے۔ اصل میں قرآن ایک ایسا دریچہ ہے جس سے ہم اگلی دنیا کو دیکھ سکتے ہیں۔ وہاں کے عذاب اور ثواب کو بڑے ہی مفصل طریقہ سے بتا دیا گیا ہے۔ جو بھی شرک کر رہے ہیں عذاب دردناک کے لیے تیار ہوجائیں اور جو اللہ کے عبادت گزار نیک بندے ہیں وہ قیامت کے دن اللہ کے خاص مہمان ہوں گے۔ عیسائی کہتے ہیں کہ ” ان کے گناہوں کا کفارہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) نے سولی پر چڑھ کر ادا کردیا ہے وہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو (نعوذ باللہ) اللہ کا بیٹا کہتے ہیں۔ انکا خیال ہے کہ وہ ان کی سفارش سے بخش دیے جائیں گے۔ حالانکہ یہ تو شرک ہے۔ بخشے صرف وہی جائیں گے جو توحید کے ماننے والے نیک، سچے اور پکے مسلمان ہیں۔ اللہ نے ایسے ہی لوگوں سے وعدہ کیا ہے ” جس دن ہم پرہیزگاروں کو اللہ کے سامنے مہمان کے طور پر حاضر کریں گے۔ “ (آیت : 85 )
Top