Mafhoom-ul-Quran - Al-Baqara : 122
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ
يَا بَنِي اِسْرَائِيلَ : اے بنی اسرائیل اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتِيَ : میری نعمت الَّتِي : جو کہ اَنْعَمْتُ : میں نے انعام کی عَلَيْكُمْ : تم پر وَاَنِّي : اور یہ کہ میں نے فَضَّلْتُكُمْ : تمہیں فضیلت دی عَلَى : پر الْعَالَمِينَ : زمانہ والے
اے بنی اسرائیل ! یاد کرو میری وہ نعمت جس سے میں نے تمہیں نوازا تھا اور یہ کہ میں نے تمہیں دنیا کی تمام قوموں پر فضیلت دی تھی۔ (122)
تشریح : گزشتہ آیات میں بنی اسرائیل کا ذکر بڑی تفصیل سے بیان کیا جا چکا ہے، ان کی ہر قسم کی کمزوریوں کو اچھی طرح بیان کیا جا چکا ہے۔ یہاں بنی اسرائیل کو تمام دیئے گئے انعامات یاد کروائے جارہے ہیں اور پھر واضح کیا جارہا ہے کہ اب اگر انہوں نے مزید ہٹ دھرمی، تعصب گروہ بندی اور ضد کا مظاہرہ کیا اور بنی آخرالزماں ﷺ پر ایمان نہ لائے، سیدھی راہ اگر اختیار نہ کی تو پھر آخرت میں ان کی گرفت یقیناً ہوگی اور آخرت کی گرفت بڑی سخت اور اٹل ہے۔ وہاں پر ہر شخص اپنے کئے کا بدلہ بڑے انصاف سے اور ضرور پائے گا۔ دنیا میں سزا سے بچنے کے لئے کسی کی سفارش، فدیہ (بدلہ) جرمانہ یا طاقت کام آسکتی ہے مگر آخرت میں نہ تو کوئی سفارش کام آئے گی، نہ مال، جرمانے میں قبول ہوگا اور نہ ہی کسی کی طاقت ہی کام آئے گی۔ بس اپنے کئے ہوئے تمام اعمال کا بدلہ پورا پورا ضرور بھگتنا پڑے گا کسی طرح سے بھی کوئی کسی کی ہرگز مدد نہ کرسکے گا۔ اللہ کا انصاف اور اس کی گرفت بڑی زبردست ہے۔ اللہ اس سے بچائے اور نیکی کی راہ پر چلنے کی توفیق عطا کرے۔ ( آمین) اگلی آیت میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قیادت اور امامت کا ذکر کیا گیا ہے۔
Top