Mafhoom-ul-Quran - Al-Baqara : 220
فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ١ؕ وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الْیَتٰمٰى١ؕ قُلْ اِصْلَاحٌ لَّهُمْ خَیْرٌ١ؕ وَ اِنْ تُخَالِطُوْهُمْ فَاِخْوَانُكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ١ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَاَعْنَتَكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
فِى الدُّنْيَا : دنیا میں وَالْاٰخِرَةِ : اور آخرت وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور وہ آپ سے پوچھتے ہیں عَنِ : سے (بارہ) میں الْيَتٰمٰي : یتیم (جمع) قُلْ : آپ کہ دیں اِصْلَاحٌ : اصلاح لَّھُمْ : ان کی خَيْرٌ : بہتر وَاِنْ : اور اگر تُخَالِطُوْھُمْ : ملالو ان کو فَاِخْوَانُكُمْ : تو بھائی تمہارے وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے الْمُفْسِدَ : خرابی کرنے والا مِنَ : سے (کو) الْمُصْلِحِ : اصلاح کرنے والا وَلَوْ : اور اگر شَآءَ : چاہتا اللّٰهُ : اللہ لَاَعْنَتَكُمْ : ضرور مشقت میں ڈالتا تم کو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
پوچھتے ہیں یتیموں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے ؟ کہو جس طرز عمل میں ان کے لیے بھلائی ہو وہی اختیار کرنا بہتر ہے۔ اگر تم اپنا اور ان کا خرچ اور رہنا سہنا مشترک رکھو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ آخر وہ تمہارے بھائی بند ہی تو ہیں۔ برائی کرنے والے اور بھلائی کرنے والے دونوں کا حال اللہ پر روشن ہے۔ اللہ چاہتا تو اس معاملہ میں تم پر سختی کرتا، مگر وہ صاحب اختیار ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب حکمت بھی ہے
تشریح : آیت 217 کا شان نزول یہ ہے کہ ایک مرتبہ سفر کے دوران کفار اور چند صحابیوں کی آپس میں لڑائی ہوگئی اور ایک مشرک مارا گیا۔ یہ لڑائی جمادی الثانی کی 30 تاریخ کو ہوئی جو کہ بعد میں معلوم ہوا کہ جمادی الثانی کا مہینہ 29 دنوں کا ہوگیا تھا۔ اس لیے لڑائی یکم رجب کو ہوگئی اور یہ مہینہ حرمت والا مہینہ تھا یہ صرف غلطی کی بناء پر ہوگیا تھا لیکن کفار کو تو بہانہ چاہیے تھا مسلمانوں پر طعنہ زنی کرنے کا کہ دیکھو مسلمان حرمت والے مہینوں کا بھی احترام نہیں کرتے تو وہ صحابہ آنحضرت ﷺ کے پاس گئے اور دریافت کیا کہ یہ غلطی بیخبر ی میں ہوگئی ہے۔ اب کیا حکم ہے ؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ غلطی میں گناہ معاف ہوتا ہے، حرمت کا خیال نہ رکھنا بری بات ہے لیکن غلطی ہوجائے تو معاف ہوسکتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ پہلے بھی بیان ہوچکا ہے کہ اگر حرمت والے مہینوں میں اور حرمت والی جگہ پر کفار جنگ شروع کریں تو تم بھی دفاعی جنگ کرسکتے ہو۔ محرم رجب، ذی قعدہ، ذی الحجہ یہ چار مہینے حرمت والے ہیں۔ تفصیل سے بیان کیا جا چکا ہے۔ اللہ رب العزت نے وضاحت سے فرما دیا کہ غلطی سے جو ہوا وہ معاف ہے مگر یہ کفار جو جان بوجھ کر کر رہے ہیں مثلاً اللہ کی راہ سے روکنا یعنی اسلام قبول کرنے پر اذیتیں دینا، مارنا پیٹنا اور پھر بیت اللہ میں داخل ہونے سے روکنا۔ اللہ کی عبادت میں رکاوٹیں کھڑی کرنا پھر مسلمانوں پر اس قدر ظلم کئے کہ وہ اپنا سب کچھ چھوڑ کر مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ فساد غارت گری اور دین سے منع کرنا یہ سب فتنے کفار خوب زور و شور سے کر رہے تھے۔ تو رب العزت فرماتے ہیں کہ جب فتنہ اس قدربڑھ جائے تو قتل کرنا واجب ہوجاتا ہے۔ کیونکہ فتنہ قتل سے بڑھ کر ہے اسے روکنے کے لیے قتل جائز ہے۔ تاکہ امن ہوجائے۔ اس آیت میں وضاحت سے بتایا جارہا ہے کہ کفار تو ہر وقت اور ہر صورت میں مسلمانوں سے لڑتے رہیں گے، کیونکہ اسلام کے اصول و قوانین اور عقائد ان سے بالکل علیحدہ ہیں۔ یہ کمزوروں پر ظلم کرتے ہیں، بتوں کو پوجتے ہیں، شراب پیتے ہیں، جوا کھیلتے ہیں۔ غرض ان کی ہر بات اسلام سے مختلف ہے۔ اسی لیے وہ اپنی پوری کوشش کرتے رہتے تھے کہ مسلمانوں کو اس حد تک تنگ کریں کہ وہ اسلام قبول کرنے سے باز آجائیں۔ اسلام کو چھوڑ کر دوبارہ کفر کی راہ اختیار کرلیں تو اللہ تعالیٰ تنبیہ کرتے ہیں کہ اگر کوئی شخص گھبرا کر یا کسی بھی وجہ سے دوبارہ کافر ہوگیا تو اس کی سزا بڑی سخت ہے کفر کی حالت میں اگر وہ مرگیا تو اس کے تمام عمل ضائع ہوجائیں گے اور آخرت میں بھی ایسے لوگوں کو ہمیشہ ہمیشہ دوزخ کا عذاب دیا جائے گا۔ اگر کوئی شخص مرتد ہوجائے اور پھر مرنے سے پہلے مسلمان ہوجائے تو ایسے شخص کی توبہ قبول ہوسکتی ہے، لیکن اگر کوئی کفر کی حالت میں ہی مرجائے تو جو اچھے اعمال اس نے قبول اسلام کے بعد کئے تھے۔ ان کا بدلہ بھی اس کو کچھ نہ ملے گا۔ اس لیے اس نے دنیا بھی کھو دی اور آخرت بھی کھو دی، تو مسلمانوں کو چاہیے کہ دین اور ایمان پر ڈٹے رہیں، کیونکہ اللہ جل شانہ نے بار بار اعلان کیا ہے کہ جس طرح غلطی سے صحابہ کرام سے حرمت والے مہینے میں کافر کا قتل ہوگیا تھا جو کہ انہوں نے صرف اور صرف فتنہ کو ختم کرنے کے لیے اللہ کی فرمانبرداری کیلئے جہاد کی صورت میں کیا تھا تو ان کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں وہ اللہ کی رحمت اور اجر وثواب کے پورے پورے مستحق ہیں، کیونکہ وہ ایمان لائے انہوں نے ہجرت کی اور پھر اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ اس لیے ان کی غلطی معاف ہوچکی ہے۔ اللہ تو بہت ہی بخشنے والا اور مہربان ہے۔ ایمان، ہجرت اور جہاد یہ تو مسلمان کی ڈھال ہیں۔ ایمان ! اقرارتصدیق اور عمل کا نام ہے۔ (کتاب فردوس) ایمان کی انتہاء پرہیزگاری ہے۔ (مسند احمد) جہاد کی فضیلت میں حدیث ہے ابوعبس جن کا نام عبدالرحمن بن جبر تھا بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس بندے کے دونوں پاؤں اللہ کی راہ میں (چلنے کے باعث) غبار آلود ہوجائیں اسکو آگ نہیں چھوئے گی۔ (بخاری) اگلی آیت 219 میں شراب اور جوئے کے بارے میں احکامات ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو صحابہ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں ان کو بتا دیں کہ یہ دونوں چیزیں اخلاق کو خراب کرنے والی ہیں۔ ان میں تھوڑے سے فائدے ہیں مگر نقصانات زیادہ ہیں اور اس آیت میں مصلحت کے طور پر ان دونوں چیزوں کو فوری طور پر حرام قرار نہیں دیا گیا ان لوگوں میں شراب کی عادت بہت پرانی تھی اور نشہ کی عادت فوراً چھوڑ دینا آسان کام نہیں اس لیے انسانی فطرت کو مدنظر رکھتے ہوئے سب سے پہلی آیت جو شراب کے بارے میں اتری اس میں صرف برائی، نقصان اور ناپسندیدگی کا ذکر کیا گیا پھر آہستہ آہستہ مختلف آیات اور واقعات کی روشنی میں شراب کو حرام قرار دے دیا گیا اور اس کو ام الخبائث یعنی تمام برائیوں کی ماں کہا گیا ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : شراب اور ایمان جمع نہیں ہوسکتے۔ (نسائی) اس آیت میں صرف خرابی کا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ اور گناہ کہا گیا ہے۔ نقصانات تو بیشمار ہیں یہاں تھوڑے سے بیان کئے جاتے ہیں۔ مثلاً انسان اپنے ہوش و حواس میں نہیں رہتا، گالیاں بکتا ہے، ناپاکی، حرام کاری اور فرائض سے غفلت اس کی عادت بن جاتی ہے۔ صحت، اخلاق اور معاشی نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔ شراب معدہ، جگر اور گردوں کو تباہ کردیتی ہے۔ پیسہ برباد ہوجاتا ہے اور پھر نشہ پورا کرنے کے لیے انسان اخلاق سے گری ہوئی حرکتیں کر ڈالتا ہے، چوری، ڈاکہ، قتل اور دنگا فساد اس کیلئے معمولی بات ہوجاتی ہے اور یوں معاشرے میں نہ اس کی عزت رہتی ہے اور نہ وقار، غرض ایک اچھی عقل رکھنے والا انسان ضرور اس فیصلہ پر پہنچ جاتا ہے کہ شراب گندگی ہے، شیطانی کام ہے، زہر ہے جو انسان کی تباہی اور بربادی کا ذریعہ بنتی ہے، شراب اور جوئے کی ممانعت آہستہ آہستہ چار مختلف آیات میں نافذ کی گئی ہے جو آئندہ بیان کی جائے گی۔ تاکہ اس عادت کو چھوڑنا مشکل نہ ہو۔ آہستہ آہستہ اس کی برائیاں عملی طور پر بیان کی گئی ہیں اس کے فائدے برائے نام ہیں۔ اسی لیے صاف کہا گیا ہے کہ فائدہ کی نسبت گناہ زیادہ ہے، فائدے یہ ہیں لذت و فرحت ہوتی ہے، قوت میں عارضی اضافہ ہوتا ہے، رنگ صاف ہوجاتا ہے، تھوڑی سی دیر کے لیے غموں کو بھلا دیتی ہے، مگر یہ فائدے اتنے عارضی اور برائے نام ہیں کہ گناہ کے سمندر میں بالکل غائب ہوجاتے ہیں اسی طرح جوا انسان کو کبھی تھوڑی سی کامیابی دیتا ہے مگر انسان کی مالی حالت تباہ کردیتا ہے، لوٹ مار، چوری، قتل و غارت گری، فساد عیاشی اور فضول خرچی کا عادی بنا دیتا ہے۔ ظاہر ہوا کہ جوئے کے فائدے گناہ کے مقابلہ میں برائے نام ہیں، جوئے کی مختلف شکلیں ہیں، مثلاً گھوڑ دوڑ کی شرطیں، لاٹری، سٹے بازی، اور چوسر وغیرہ اسی طرح شرط پر جانوروں کا لڑانا بہت بےرحمی کا کام ہے، جس سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا : جانوروں میں لڑائی کروانا ان پر ظلم کرنا ہے جو اللہ کو پسند نہیں۔ (گلدستہ احادیث بحوالہ ابن عباس ) آیت 215 میں پوچھا گیا ہے کہ کہاں خرچ کریں جو تفصیل سے بیان کردیا گیا ہے۔ اب یہاں پوچھتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں کیا خرچ کریں ؟ یہاں انسانی سوسائٹی کو مضبوط کرنے کا بہترین اصول بتایا گیا ہے۔ یعنی ایسا نظام کہ جس سے قوم بیکاری اور غربت سے بچ سکے اور پھر اس طرح قوم کو ان تمام برائیوں سے بچایا جاسکتا ہے جو غربت، بھوک اور بیکاری سے پیدا ہوجاتی ہیں اور وہ نظام یا قانون یہ بتایا گیا ہے کہ ہر شخص جائز اور محنت سے روپیہ کمائے۔ اپنی تمام جائز اور ضروری حاجات کو پورا کرنے کے بعد جو بھی رقم بچ جائے اس کو ضرورت مند، غربا اور مستحق لوگوں میں تقسیم کر دے یہاں جو ” اَلْعَفْوَ “ کا لفظ استعمال ہوا ہے اس کا مطلب ہے۔ Surplus یعنی ضروریات سے زیادہ مال اپنے پاس رکھنے کی بجائے تقسیم کردیا جائے۔ یہ بہت امیر اور بہت غریب طبقہ کو ختم کرنے کا بہترین اصول ہے جو قرآن پاک میں بتایا گیا ہے اس کے لیے زندگی گزارنے کے اصول، آخرت کی فکر نیکی اور بدی کے تمام راستے قرآن پاک میں مسلمانوں کو اچھی طرح بتاد یئے گئے ہیں اور بار بار تاکید کی گئی ہے کہ قرآن پاک کے تمام بیانات کو خوب غور سے پڑھو، سمجھو اور ان پر عمل بھی کرو، تاکہ دنیاو آخرت میں خوشیاں، کامیابیاں سکون اور عزت و احترام حاصل ہو، کیونکہ کلام الٰہی اور احکام الٰہی بڑے ہی فائدہ مند اور بہترین ہیں۔ یتیموں کے مال اور ان کی اصلاح و تربیت کے بارے میں پہلے بتایا گیا تھا کہ جو یتیم کے مال میں گڑ بڑ کرے گا تو گویا وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرے گا اس پر صحابہ ڈر گئے تو انہوں نے آنحضرت ﷺ سے اور بھی وضاحت چاہی جس پر یہ آیت نازل ہوئی اس میں جواب دیا گیا ہے کہ اصل مقصد تو یتیموں کی اصلاح کرنا ہے جس طرح بھی ممکن ہو، کوئی بھی راستہ اختیار کرلو یتیم کا خرچہ چاہے اپنے ساتھ رکھ لو یا علیحدہ رکھ لو مگر نیت صرف یتیم کی بہتری اور اس کی مکمل اصلاح ہی ہو۔ پھر ان کو بھائی کہا گیا ہے مقصد یہ ہے کہ یتیموں کو کوئی علیحدہ مخلوق نہ سمجھو، بلکہ ان کے ساتھ خلوص، نیک نیتی اور محبت سے وہی سلوک کرو جو تم اپنے بھائیوں کے ساتھ کرتے ہو۔ یہ حکم تم لوگوں کو مشکل سے بچانے کے لیے دیا گیا ہے۔ تاکہ یہ فرض تم آسانی اور سہولت سے ادا کرسکو بیشک اللہ تعالیٰ زبردست تدبیر کرنے والا ہے۔ وہ بندوں کو آسان اور اچھے اصول بتاتا ہے تاکہ لوگ خواہ مخواہ کی پریشانی میں نہ پڑیں۔
Top