Mafhoom-ul-Quran - Al-Baqara : 238
حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى١ۗ وَ قُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِیْنَ
حٰفِظُوْا : تم حفاظت کرو عَلَي الصَّلَوٰتِ : نمازوں کی وَ : اور الصَّلٰوةِ : نماز الْوُسْطٰى : درمیانی وَ : اور قُوْمُوْا : کھڑے رہو لِلّٰهِ : اللہ کے لیے قٰنِتِيْنَ : فرمانبردار (جمع)
اپنی نمازوں کی حفاظت کرو خصوصاً درمیان والی نماز، اللہ کے آگے اس طرح کھڑے ہو جیسے فرمانبردار غلام کھڑے ہوتے ہیں
نمازوں کی پابندی تشریح : عبادات میں نماز کا درجہ بلند ترین ہے۔ کیونکہ اس کے قائم کرنے میں انسان کے لیے نہ دولت کی ضرورت ہے اور نہ ہی مضبوط صحت کی۔ بلکہ یہ خود انسان کی روح کو مضبوط کرنے کے لیے خزانہ ہے اور جسم کو چستی اور مضبوطی دینے کا ذریعہ بھی ہے نماز کے بیشمار فوائد ہیں۔ مثلاً : 1 روحانی قوت بڑھانے کا ذریعہ ہے۔ -2 برائیوں سے نماز بچاتی ہے۔ -3 نظم و ضبط، اتحاد اور اصلاح کا ذریعہ ہے۔ -4 دل کو سکون دینے کا باعث ہے۔ -5 نماز مومن کی پہچان ہے۔ -6 ارکان اسلام کا دوسرا رکن نماز ہے۔ -7 نماز میں شفا ہے۔ (حدیث ابن ماجہ) نماز اہم ترین فرائض میں سے ہے اسی لیے نماز کا ذکر قرآن پاک میں آیا ہے۔ سورة طٰہ آیت 32 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ” اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم کرو اور اس پر قائم رہو “۔ اس آیت میں نمازوں کی حفاظت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کی فضیلتیں اور فائدے بیشمار ہیں جو آئندہ بھی بیان کئے جاتے رہیں گے اور درمیانی نماز کا خاص طور سے حکم ہے۔ مفسرین اور علماء نے اس بارے میں بہت سی مختلف رائے دی ہیں۔ مگر سب سے قریب ترین نماز عصر ہی لگتی ہے کہ جس کو درمیانی نماز کہا جاسکتا ہے اس کی وجہ تو رب العزت ہی جانتے ہیں ہمیں تو صرف یہ معلوم ہے کہ نماز کو بڑے آرام و سکون اور پوری توجہ سے پڑھنا چاہیے اور یہی حقیقت بھی ہے، کیونکہ نماز کا مطلب ہے اللہ کے سامنے حاضر ہو کر اس کی تعریف کرکے اس سے اپنی حاجات مانگی جائیں تو جب تک پوری توجہ سے اللہ کے حضور کھڑے نہ ہونگے اس سے بات چیت کیسے ہوسکتی ہے۔ نماز پڑھنے کا طریقہ یہی ظاہر کرتا ہے کہ ہم غلام ہیں اور اپنے آقا کے سامنے عاجزی سے کھڑے ہیں۔ سب سے پہلے نیت کرتے ہیں پھر دونوں ہاتھ کانوں تک لے جاکر تکبیر کہتے ہیں اس کے بعد دونوں ہاتھ باندھ کر مؤدب کھڑے ہوجاتے ہیں اور اللہ کی پاکی بیان کی جاتی ہے اور یہ اقامت کہلاتی ہے۔ اس کے بعد رکوع میں جاتے ہیں اور اس کی شکل یہ ہے کہ گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر کمر جھکائی جائے اس کے بعد سجدہ آتا ہے اور یہ انتہائی عاجزی اور اللہ کی بڑائی بیان کرنے کا سب سے واضح طریقہ ہے، کیونکہ اس میں انسان اپنا ماتھا رب العزت کے حضور میں زمین پر ٹیکتے ہوئے اللہ کی بڑائی، عظمت اور اپنی عاجزی کا اظہار کرتے ہوئے اللہ کی شان میں تسبیح کرتا ہے پھر آخر میں تشہد جو کہ بیٹھ کر اللہ کی تعریف نبی کریم ﷺ پر درود اور دعاء کا طریقہ ہے پھر سلام پھیر کر نماز سے رخصت مل جاتی ہے ( اس کے بعد دعا کا موقعہ ملتا ہے۔ دعا عبادت کا مغز ہے) یہ تمام عمل انسان کو وہ تمام فضیلتیں عطا کرتا ہے جو کہ پچھلے بیان میں لکھی گئی ہیں۔ اسی سلسلہ میں شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔ دور کردیتی ہے روح و جان سے ہر آلودگی فکر کی دنیا کو ایسے جگماتی ہے نماز نماز قائم کرنے کی اس حد تک تاکید کی گئیے کہ جنگ کی حالت میں بھی حکم ہے کہ چاہے تم سوار ہو یا پیدل ہو تو جیسے بھی ممکن ہو اشارے سے جھک کر نماز ضرور ادا کرو اور جب امن و سکون ہوجائے تو پھر نماز پوری طرح ادا کرو جیسا کہ اس کا طریقہ بتایا جا چکا ہے۔ نماز دنیا و آخرت کی بھلائیوں کا خزانہ ہے اسی لیے نماز کو جنت کی کنجی کہا گیا ہے۔ اس کی فضیلت میں حدیث ہے حضرت عبداللہ بن بسر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” کہ میری امت قیامت کے دن سجدوں کے باعث روشن چہرے والی ہوگی اور وضو کے باعث سفید پیشانی اور سفید ہاتھ پاؤں والی ہوگی “۔ (ترمذی) نماز عصر کی فضیلت میں حدیث ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ” جس کی عصر کی نماز فوت ہوگئی گویا اس کے اہل و عیال اور اس کا مال نقصان کا شکار ہوگئے “۔ (بخاری) اگلی آیات میں بیوہ کے لیے وصیت کا بیان ہے جو کہ اب شادی شدہ زندگی کے مسائل کا آخری مسئلہ ہے۔
Top